ملک شام کا دوسرا سفر



اس مجلس میں رسول خدا نے جو تقریر کی اس سے مسئلہٴ امامت کی اھمیت واضح ھوجاتی ھے اور یہ بات ثابت ھوتی ھے کہ اصل (نبوت) کو (امامت) سے جدا نھیں کیا جاسکتا۔

عزیز و اقارب کو ھی کیوں پھلے دعوت حق دی گئی؟

مندرجہ بالا سوال کے جواب میں کھا جاسکتا ھے کہ دعوت عمومی سے قبل عقل و دانش کی رو سے عزیز و اقارب کوھی دعوت دی جانی چاھئے کیونکہ امر واقعی یہ ھے کہ رسول خدا کا یہ اقدام انتھائی حساس مرحلے اور خطرناک حالات میں دعوت حق کی بنیادوں کو استوار کرنے کا بھترین ذریعہ تھا۔

کیونکہ:

۱۔ عزیز و اقارب کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرکے ھی پیغمبر اکرم (ص) دشمنان اسلام کے خلاف طاقتور دفاعی محاذ قائم کرسکتے تھے، اس کا کم از کم اتنا فائدہ تو تھا ھی کہ اگر ان کے دل آپ کے دین کی طرف متوجہ نہ بھی ھوئے تو بھی وہ رشتہ داری اور قرابت کی بناپر آنحضرت کے تحفظ و دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ھوں گے۔

۲۔ رسول اللہ نے کوتاھیوں ور اپنی ذات میں تنظیمی قوت کا خوب اندازہ لگایا اور یہ جان لیا تھا کہ وہ کون سی طاقتیں ھیں جو آپ کی مخالفت کریں گی اور آپ سے برسر پیکار ھوں گی۔

ج: عام دعوتِ حق

رسول خدا نے اس آیت فاصدع بما توٴمر و اعرض عن المشرکین انّا کفیناک۔ جس کا آپ کو علم دیا جارھا ھے اسے کھلم کھلا بیان کرو اور مشرکین کی پروا نہ کرو تمھارا مذاق اڑانے والوں کے لئے ھم کافی ھیں۔

آپ کو اس کام پر مقرر کیا گیا کہ سب کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں، چنانچہ اس مقصد کی خاطر آپ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور اس جم غفیر کے سامنے جو اس وقت وھاں موجود تھا آپ نے اس تمھید کے ساتھ تقریر شروع کی کھ:

اگر میں یہ کھوں کہ اس پھاڑ کے پیچھے تمھاری گھات میں دشمن بیٹھا ھوا ھے اور تمھارے لئے اس کا وجود سخت خطرے کا باعث ھے تو کیا تم میری بات کا یقین کروگے؟

سب نے یک زبان ھوکر کھا کہ ھاں ھم آپ کی بات کا یقین کریں گے کیونکہ ھم نے آپ کی زبان سے اب تک کوئی جھوٹی بات نھیں سنی ھے اس کے بعد آپ نے فرمایا:

فانی نذیر لکم بین یدی عذاب شدید۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next