ملک شام کا دوسرا سفر



اس کے برعکس اگر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو اس شادی کے محرکات میں بھت سے معنوی پھلو شامل تھے اس سلسلے میںھم یھاں پھلے پیغمبر خدا کی اور بعد میں حضرت خدیجہ کی نمایندگی کرتے ھوئے ذیل میں چند نکات بیان کرتے ھیں:

اول تو پیغمبر کی پوری زندگی ھمیں زھد و تقویٰ و معنوی اقدار سے پر نظر آتی ھے جو اس بات کی دلیل ھے کہ آنحضرت کی نظر میں دنیوی مال و دولت اور جاہ و حشم کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی اور آپ نے حضرت خدیجہ کی دولت کو کبھی بھی اپنے ذاتی آرام و آسائش کی خاطر استعمال نھیں کیا۔

دوسرے اس شادی کی پیشکش حضرت خدیجہ نے کی تھی نہ کہ رسول اسلام نے۔

اب ھم یھاں حضرت خدیجہ کی جانب سے اپنے خیالات کا اظھار کرتے ھیں۔ حضرت خدیجہ عفیف و پاکدامن خاتون تھیں اور انھیں متقی و پرھیزگار شوھر کی تلاش تھی۔

دوسرے یہ کہ ملک شام سے واپس آنے کے بعد جب ”میسرہ''غلام نے سفر کے واقعات حضرت خدیجہ کو بتائے تو ان کے دل میں ”امین قریش“ کے لئے جذبہ محبت و الفت بڑہ گیا چنانچہ اس محبت کا سرچشمہ پیغمبر اکرم کے کمالات نفسانی اور اخلاقی فضائل تھے اور حضرت خدیجہ کو ان ھی کمالات سے تعلق و واسطہ تھا۔

تیسرے یہ کہ پیغمبر اکرم سے شادی کرنے کے بعد حضرت خدیجہ نے آپ کو کبھی سفر تجارت پر جانے کی ترغیب نھیں دلائی اگر انھوں نے یہ شادی اپنے مال و دولت میں اضافہ کرنے کی غرض سے کی ھوتی تو وہ رسول اکرم کو ضرور سفر پر روانہ کرتیں تاکہ مال و دولت میں اضافہ ھوسکے۔ اس کے برعکس حضرت خدیجہ نے اپنی دولت آنحضرت کے حوالے کردی تھی تاکہ اسے آپ ضرورت مند لوگوں پر خرچ کریں۔

حضرت خدیجہ نے رسول خدا سے گفتگو کرتے ھوئے شادی کی درخواست کے اصل محرک کو اس طرح بیان کیا ھے: اے میرے چچا کے بیٹے چونکہ میں نے تمھیں ایک شریف، دیانتدار، خوش خلق اور راست گو انسان پایا تو میں تمھاری جانب مائل ھوئی اور شادی کے لئے پیغام بھیجا۔

پیغمبر اکرم(ص) کے منہ بولے بیٹے

حضرت خدیجہ سے رسول خدا کی شادی کے بعد حضرت خدیجہ کے بھتیجے حکیم بن حزام ملک شام سے اپنے ساتھ کچھ غلام لے کر آئے جن میں ایک آٹہ سالہ لڑکا زید بن حارثہ تھا، جس وقت حضرت خدیجہ ان غلاموں کو دیکھنے کے لئے آئیں تو حکیم نے ان سے کھا کہ پھوپھی جان آپ ان غلاموں میں سے جسے بھی چن لیں گی وہ آپ ھی کو مل جائے گا (۲) حضرت خدیجہ نے زید کو چن لیا۔

جب رسول خدا نے زید کو حضرت خدیجہ کے پاس دیکھا تو آپ نے یہ خواھش ظاھر کی کہ یہ غلام مجھے دے دیا جائے حضرت خدیجہ نے اس غلام کو پیغمبر اکرم کے حوالے کردیا پیغمبر اکرم نے اسے آزاد کرکے اپنا فرزند (متبنی) بنا لیا لیکن جب پیغمبر خدا پر وحی نازل ھونا شروع ھوئی تو قرآن نے حکم دیا کہ انھیں متبنی نھیں صرف فرزند کھا جائے۔

جب زید کے والد ”حارث“ کو یہ معلوم ھوا کہ ان کا بیٹا شھر مکہ میں رسول خدا کے گھر میں ھے تو وہ آنحضرت کے پاس آئے اور کھا کہ ان کا بیٹا ان کو واپس دے دیا جائے آنحضرت نے زید سے فرمایا: ھمارے ساتھ رھوگے یا اپنے والد کے ساتھ جاوٴگے؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next