ملک شام کا دوسرا سفر



مشرکین قریش نے عمار بن ولید بن مغیرہ ایسے خوبرو، تنومند اور وجیہ و جمیل جوان شاعر کو حضرت ابوطالب کی فرزندی میں دینے کی کوشش کی تاکہ پیغمبر اکرم (ص) کی حمایت سے دست بردار ھوجائیں ور آپ کو ان کے حوالے کردیں۔

حضرت ابوطالب نے ان کی ھر بات کا نفی میںجواب دیا ور اس کام کے لئے کسی بھی شرط پر آمادہ نہ ھوئے کہ رسول خدا کی حمایت سے دست بردار ھوجائیں۔

ب: لالچ

سرداران قریش کو جب پھلے ھی مرحلے میں شکست و ناکامی ھوئی تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ چراغ نبوت کو خاموش کرنے کے لئے داعی حق کو مال و دولت کی لالچ دی جائے، چنانچہ اس مقصد کے تحت پھلے وہ حضرت ابوطالب کے پاس پھونچے اور یہ شکوہ و شکایت کرتے ھوئے کہ ان کے بھتیجے (حضرت محمد) نے ان کے دےوتاوٴں کے خلاف جو رویہ اختیار کیا ھے وہ بھت ھی نازیبا ھے، لھٰذا اگر حضرت محمد (ص) ھمارے دیوتاوٴں سے دستکش ھوجائیں تو ھم انھیں دولت سے مالا مال کردیں گے، ان کی اس پیشکش کے بارے میں رسول خدا (ص) نے جواب دیا:

خداوند متعال نے مجھے دنیا اور زراندوزی کے لئے انتخاب نھیں فرمایا ھے بلکہ مجھے اس لئے منتخب کیا ھے کہ لوگوں کو اس کی جانب آنے کی دعوت دوں اور اس مقصد کی طرف ان کی رھبری کروں۔

یہ بات آپ نے دوسری جگہ ان الفاظ میں فرمائی ھے:

چچا جان! خدا کی قسم اگر وہ سورج کو میرے داھنے ھاتہ اور چاند کو بائیں ھاتہ میں رکہ دیں تو بھی میں نبوت سے دست بردار ھونے والا نھیں، اس خدائی تحریک کو فروغ دینے کے لئے میں جان کی بازی تو لگا سکتا ھوں مگر اس سے دستکش ھونے کے لئے تیار نھیں ھوں۔ (۳)

سرداران قریش نے اگلے مرحلے پر یہ فیصلہ کیا کہ وہ براہ راست پیغمبر اکرم (ص) سے گفتگو کریں گے، چنانچہ اس مقصد کے تحت انھوں نے اپنا نمائندہ آپ کی خدمت میں روانہ کیا، اور آپ کو اپنے مجمع میں آنے کی دعوت دی، جب رسول خدا ان لوگوں میں پھونچ گئے تو کفار قریش نے آپ کے رویّہ کی شکایت کرتے ھوئے کھا کہ اگر آپ کو مال و دولت کی تمنا ھے تو ھم اتنا مال و متاع دینے کے لئے تیار ھیں کہ آپ دولتمندوں میں سب سے زیادہ مالدار ھوجائیں، اگر آپ کو جاہ و امارت کی خواھش ھے تو ھم آپ کو اپنا امیر و سردار بنانے کے لئے تیار ھیں، اور ایسے مطیع و فرمانبردار بن کر رھیں گے کہ آپ کی اجازت کے بغیر معمولی سا بھی کام نہ کریں گے اور اگر آپ کے دل میں حکومت اور سلطنت کی آرزو ھے تو ھم آپ کو اپنا حکمراں و فرمانروا تسلیم کرنے کے لئے آمادہ ھیں۔

یہ سن کر رسول خدا نے فرمایا:

میں مال و دولت جمع کرنے، تمھارا سردار بننے اور تخت سلطنت پر پھونچنے کےلئے منتخب نھیں کیا گیا ھوں، خداوند تعالیٰ نے مجھے پیغمبر کی حیثیت سے تمھارے پاس بھیجا ھے اور مجہ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ھے، مجھے تمھارے پاس جنت کی خوشخبری دینے اور عذاب دوزخ سے ڈرانے کے لئے مقرر کیا ھے جس پیغام کو پھونچانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی ھے اسے میں نے تم تک پھونچا دیا ھے، اگر تم میری بات مانوگے تو تمھیں دنیا و آخرت کی خوشیاں نصیب ھوں گی، اور اگر تم میری بات کو قبول کرنے سے انکار کروگے تو میں اس راہ میں اس وقت تک استقامت و پائیداری سے کام لوں گا کہ خداوند تعالیٰ میرے اور تمھارے درمیان فیصلہ کردے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next