قیامت



وہ معنی جو ظاھری طریقے سے حاصل ھوتے ھیں وہ خدا ئے تعالیٰ کو اس کائنات کا مطلق حکمراں اور فرمان روا بیان کرتے ھیں کہ تمام جھان اور کائنات اسی کی ملکیت ھے۔ خدا ئے تعالیٰ نے بے شمار فرشتوں کو پیدا کیا ھے جو اس کے فرمان بردار اور اس کے احکام کو نافذ کرتے ھیں۔ کائنات کا ھر حصہ اور نظام فرشتوں کے ایک خاص گروہ سے متعلق ھے جو اس حصے یا نظام کی نگرانی کرتے ھیں۔

انسان بھی خدا کے بندے اور اس کے پیدا کئے ھوئے ھیں اور وہ مجبور ھیں کہ خدا کے حکم کی اطاعت کریں اور پیغمبر خدا کے ان بیانات اور قوانین کو لوگوں تک پھنچانے پر مامور ھیں جو خدا کی طرف سے انسانوں کے لئے بھیجے جاتے ھیں اور خدا ئے تعالیٰ ان کا نفاذ چاھتا ھے۔

اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایمان اور اطاعت کے لئے جزا کا وعدہ فرمایا ھے اور کفر و گناہ کے لئے عذاب و سزا کا وعدہ کیا ھے۔ جیسا کہ قرآن فرماتا ھے، وہ اپنے وعدے کی ھرگز خلاف ورزی نھیں کرے گا۔چونکہ خدائے تعالیٰ عادل ھے اور عدل کا تقاضا یہ ھے کہ دوسری دنیا میں نیکو کاروں کے دو گروہ ایک جیسی زندگی سے بھرہ مند نھیں ھوں گے۔ ان دونوں گروھوں کو آپس میں علیحدہ علیحدہ کر دیا گیا ھے یعنی اچھے لوگوں کو اچھی زندگی اور برے لوگوں کو بری زندگی ملے گی۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے عدل کے مطابق وعدہ فرمایا ھے کہ اس دنیا میں بسنے والے انسانوں کو کسی استثناء کے بغیر موت کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا اور ان کے ایمان و اعتقادات اور اعمال کے بارے میں مکمل تفتیش کرے گا اور ان کے درمیان حقیقت اور حق پر مبنی فیصلے اور عدل و انصاف کرے گا جس کے نتیجے میں ھر حقدار کو اس کا حق مل کر رھے گا ۔خدا مظلوم کی فریاد سن کر ظالم سے اس کا حق لے گا یعنیھر عمل کی پاداش ھر انسان کو ملے گی۔ انسانوں میں سے ایک جماعت دائمی بھشت میں اور دوسری دائمی دوزخ میں جائے گی۔

یہ قرآن کریم کا ظاھری بیان ھے البتہ بالکل صحیح اور درست ھے لیکن ایسی چیز ھے جو انسان کی اجتماعی فکر کی پیداوار ھے۔ یہ اسی لئے تالیف اور مرتب کی گئی ھے تاکہ اس کا فائدہ عمومی تر اور اس کے عمل کا دائرہ وسیع تر ھوجائے۔

جو لوگ حقائق کے دائرے میں قدم رکھتے ھیں اور قرآن مجید کی باطنی و معنوی زبان سے ایک حد تک آشنا ھیں، ان بیانات سے ایسے مطالب اور حقائق کو سمجھتے ھیں جو عام فھم اور عام سطح فکر سے بھت بالاتر ھیں۔ قرآن کریم بھی اپنے رواں اور سلیس بیانات کے اندر کبھی کبھی ایسے بیانات، مضامین و حقائق اور باطنی مقاصد کی طرف اشارہ کرتا ھے۔

قرآن کریم اپنے گوناگوں اشاروں کے ساتھ اجمالی طور پر بیان کرتا ھے کہ یہ کائنات اپنے تمام اجزاء کے ساتھ کہ خود بھی انھی اجزاء میں ایک ھے، اپنی ارتقائی حرکت میں (جو ھمیشہ کمال کی طرف جاری ھے) خدا کی طرف حرکت کر رھی ھے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ اپنی اس حرکت کو ختم کرکے خداوند تعالیٰ کی عظمت و شوکت کے سامنے اپنے وجود کو بالکل کھودے گی یعنی اس کا وجود مٹ جائے گا۔

انسان بھی اسی کائنات اور جھان کا ایک حصہ Ú¾Û’ اور اس کا خاص ارتقاء علم Ùˆ شعور Ú©Û’ ذریعے سے Ú¾Û’ اور بڑی تیزی سے خدا Ú©ÛŒ طرف حرکت کر رھا Ú¾Û’ اور جس دن اس Ú©ÛŒ یہ حرکت آخری حد تک Ù¾Ú¾Ù†Ú† جائے Ú¯ÛŒ اسی دن خدا Ú©ÛŒ وحدانیت Ú©Ùˆ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ Ù„Û’ گا کیونکہ ھر کمال Ú©ÛŒ صفت اور قدرت صرف خدائے واحد Ú©ÛŒ مقدس ذات  Ú©Û’ ھاتھ میں Ú¾Û’ اور اسی حقیقت Ú©Û’ ذریعے سے ھر چیز اپنی اصلی حالت میں اس Ú©Û’ سامنے ظاھر Ú¾Ùˆ جائے گی۔

یہ ابدی جھان کی پھلی منزل ھے۔ انسان کو چاھئے کہ اس دنیا میں اپنے نیک اعمال اور ایمان کے ذریعے خدا کے ساتھ رابطہ، تعلق، الفت، محبت نیز خدا کے برگزیدہ اور پیارے بندوں کے ساتھ تعلق رکھے تو اس کو بھی خدا وند تعالیٰ اور اس کے برگزیدہ اور پیارے بندوں کے پاس عالم بالا میں ایک خوش نصیب، سعادت مندانہ زندگی نصیب ھوگی جو ناقابل تعریف ھے اور اگر اس فانی دنیا کی لذتوں کے ساتھ اپنی زندگی میں محبت کرے گا تو عالم بالا میں ایک درد ناک عذاب اور ایک ابدی بدبختی میں گرفتار ھو جائے گا۔

یہ صحیح ھے کہ اس زندگی میں انسان کے نیک و بد اعمال وقتی اور عارضی ھیں اور جلد ھی ختم ھو جانے والے ھیں لیکن یہ نیک و بد اعمال انسان کے باطن میں قائم رھتے ھیں اور جھاں کھیں وہ جائے اس کے ساتھ ساتھ رھتے ھیں اور یھی اعمال انسان کو آئندہ اچھی یا بری، شیریں یا تلخ زندگی کی بنیاد اور اس کا سرمایہ ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next