جنگ بدر کی مختصر تاريخ



رسول خدا (ص) اتوار کے روز ۱۲رمضان سنہ ۲ ھجری کو ۳۱۳ مسلمان افراد کے ھمراہ (جن میں ۸۱مھاجرین اور ۲۳۱انصار شامل تھے) مدینہ سے ”بدر“ کی جانب روانہ ھوئے۔ اس وقت آپ کے پاس صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے، اور قریش کے اس تجارتی قافلہ کا تعاقب کرنا تھا جو ابوسفیان کی سرکردگی میں جارھا تھا۔

”دفیران“ کے مقام پر آپ کو اطلاع ملی کہ ابوسفیان اپنے قافلہ کی حفاظت کی خاطر راستہ بدل کر مکہ چلا گیا ھے لیکن مسلح سپاھی مکہ سے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے ”بدر“ کی جانب روانہ ھوچکے ھیں۔

رسول اکرم (ص) نے اصحاب کے درمیان اس خبر کا اعلان کرنے کے بعد ان سے مشورہ کیا، متعلقہ طور پر فیصلہ ھوا کہ اس مختصر سپاہ کے ساتھ ھی دشمن کا مقابلہ کیا جائے، چنانچہ اب یہ قافلہ ”بدر“ کی جانب روانہ ھوا۔

آخر ۱۷رمضان کو دونوں لشکروں کے سپاھیوں میں بدر کے کنووٴں کے پاس مقابلہ ھوا۔

جنگ کا آغاز دشمن کی طرف سے ھوا، پھلے مشرکین کے تین دلاور ”عتبۂ شیبہ اور ولید“ نکلے جو کہ ”حضرت علی (ع)، حضرت حمزہ او رحضرت عبیدہ''کے ھاتھوں جھنم رسید ھوئے۔

عام یورش میں سپاہ اسلام نے پروردگار کی غیبی امداد، پیغمبر اکرم (ص) کی دانشمندانہ فرمانداری اور اپنے بارے میں جھاد سے متعلق آیات سن کر پھلے تو دشمن کے ابتدائی حملوں کا دفاع کیا، اس کے بعد اس کی صفوں میں گھس کر ایسی سخت یلغار کی کہ اس کی صفیں درھم برھم ھوکر رہ گئیں، اور بھت سی سپاہ بالخصوص فرعون قریش یعنی ابوجھل کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔دشمن کا لشکر جو نوسوپچاس (۹۵۰) سپاھیوں پر مشتمل اور پورے ساز و سامان جنگ سے مسلح و آراستہ تھا، سپاہ اسلام کے مقابلہ کی تاب نہ لاسکا، چنانچہ کثیر جانی و مالی (ستر (۷۰) مقتول اور ستر قیدی کا) نقصان برداشت کرنے کے بعد اس نے راہ فرار اختیار کرنے میں اپنی عافیت سمجھی ۔اس جنگ میں سپاہ اسلام میں سے صرف ۱۴ نے جام شھادت نوش کیا۔ (تاریخ پیامبر ص۲۵۳۔ مولف امینی)

یھاں ھم مختصر طور پر سھی لیکن چند مسائل کا ذکر و تجزیہ کریں گے:

۱۔ مال غنیمت اور قیدیوں کا انجام

۲۔ فتح و کامیابی کے عوامل

۳۔ جنگ کا نتیجہ



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next