جنگ بدر کی مختصر تاريخ



دوسری طرف ”جزیرة العرب“ کے لوگوں میں اسلام کو برتر طاقت کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا چنانچہ اب سب ھی لوگ رسول خدا (ص) کے آئین اسلام کی جانب راغب ھونے لگے۔

۲۔ جنگ بدر ایسی طوفان خیز ثابت ھوئی کہ اس نے مخالفین اسلام (مشرکین، یھود اور منافقین) کی بنیادوں کو لرزا دیا، چنانچہ ان کے دلوں میں ایسا خوف و ھراس پیدا ھوا کہ اب وہ یہ سوچنے پر مجبور ھوگئے کہ اپنی حفظ و بقا کی خاطر اپنے تمام اختلافات کے باوجود یک جا ھوجائیں اور مسلمانون کو تہ تیغ کرنے کے لئے کوئی راہ تلاش کریں۔

جنگ بدر کے بعد پورے شھر مکہ میں صف ماتم بچہ گئی، قریش کا کوئی گھرانہ ایسا نہ بچا جھاں کسی عزیز کے مرنے کی وجہ سے رسم سوگواری نہ منائی گئی ھو اورجو چند قریش باقی بچ رھے انھوں نے اضطراری حالت کے تحت جلسہ طلب کیا اور وہ اس بات پر غور و فکر کرنے لگے کہ اس ننگ آور شکست کے منفی اثرات کو کیسے دور کریں اور اس کی تلافی کس طرح کی جائے۔ (السیرة النبویہ ج۲، ص۳۰۲)

”ابولھب“ کو تو ایسا صدمہ ھوا کہ وہ جنگ بدر کے بعد دس دن کے اندر اندر ھی غم و اندوہ سے گھل گھل کر راھی ملک عدم ھوگیا۔

مدینہ میں بھی جس منافق و یھودی نے مسلمانوں کی فتح و کامرانی کے بارے میں سنا اس کا شرم و خجالت سے سر جھک گیا۔

ان میں بعض نے تو یھاں تک کھنا شروع کردیا کھ․․․ جنگ ”بدر“ میں اتنے شرفاء، سرداران قوم، حکمرانان عرب اور اھل حرم مارے گئے ھیں کہ اب اس کے بعد ھمارے لئے بھتر یھی ھے کہ زمین کے سینہ پر رھنے کے بجائے اس کی کوکہ میں چلے جائیں۔ اور بعض کی زبان پر یہ بات بار بار آرھی تھی کہ ”اب جھاں کھیں پرچم محمدی لھرائے گا فتح و نصرت اسکے دوش بدوش ھوگی۔“

۳۔ جنگ بدر سے مسلمانوں کو جو مال غنیمت ملا اس کی وجہ سے مسلمانوں کی اقتصادی حالت بھتر ھوگئی اور اس کی وجہ سے ان کی ذاتی اور لشکری ضروریات بھی پوری ھوگئیں ، ان کے واسطہ جنگ کے راستہ زیادہ ھموار اور وسیع ھوگئے ۔ اس کے مقابل قریش کی اقتصادی زندگی کو سخت نقصان پھونچا کیونکہ ایک طرف تو وہ تمام تجارتی راستے جو شمال کی طرف جاتے تھے ان کے لئے مخدوش ھوگئے، دوسری طرف جنگ میں وہ تمام لوگ مارے گئے جو فن تجارت کے ماھر سمجھے جاتے تھے اور مکہ کی اقتصادی زندگی کا انحصار انھی کے ھاتھوں میں تھا۔

غزوۂ بنی قینقاع

جو یھودی مدینہ میں آباد تھے ان کی خیانت و نیرنگی کم و بیش جنگ بدر سے قبل مسلمانوں پر عیاں ھوچکی تھی۔ جب مسلمانوں کو جنگ بدر میں غیر متوقع طورپر مشرکین پر فتح و کامرانی نصیب ھوئی تو وہ سخت مضطرب و پریشان ھوئے اور ان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں لگ گئے۔ قبیلۂ بنی قینقاع اندرون مدینہ آباد تھا اور اس شھر کی معیشت اسی کے ھاتھوں میں تھی، یھی وہ قبیلہ تھا جس کی سازش و شرارت مسلمانوں پر سب سے پھلے آشکار ھوئی۔

پیغمبر اکرم (ص) نے ابتدا میں انھیں نصیحت کی اور اس بات پر زور دیا کہ آنحضرت(ص) کے ساتھ انھوں نے جو عھد و پیمان کیا ھے اس پر قائم رھیں، اس کے ساتھ ھی مشرکین قریش پر جو گزر گئی تھی اس سے بھی آپ نے انھیں آگاہ کیا، لیکن جب آپ نے دیکھا کہ وہ لوگ خود سری و بے حیائی پر اتر آئے ھیں اور قانون کی پاسداری نیز مذھبی جذبات کی پاکیزگی کا احترام کرنے کے بجائے الٹا اس کا مذاق اڑا رھے ھیں اور مسلمانوں کی عزت و ناموس پر مسلسل اھانت آمیز حملہ کررھے ھیں تو آپ (ص) نے نصف ماہ شوال (سنہ ۲ ھجری) میں ان کے قلعہ کا محاصرہ کر لیا تاکہ اس قضیہ کا فیصلہ ھوجائے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next