جنگ بدر کی مختصر تاريخ



اور جب حضرت علی (ع) آنحضرت کی خدمت میں تشریف لائے اور حضرت زھرا (س)کے لئے اپنا پیغام دیا تو آپ نے اپنی جانب سے اظھار رضامندی کردی مگر اس شرط کے ساتھ کہ حضرت فاطمہ (س) بھی اس رشتہ کو قبول فرما لیں، جب آنحضرت نے اس بات کا ذکر اپنی دختر نیک اختر سے فرمایا تو فاطمہ (س)خاموش رھیں، اس بناپر رسول خدا نے اس سکوت کو رضامندی کی علامت سمجھا اور فرمایا:

اللّٰہ اکبر سکوتھا اقرارھا

اللہ سب سے بڑا ھے یہ سکوت ھی اقرار ھے

اس کے بعد آپ نے حضرت علی (ع) کی جانب رخ کیا اور فرمایا : تمھارے پاس کیا اثاثہ ھے جس کی بناپر میں اپنی لڑکی کو تمھاری زوجیت میں دے دوں، یہ سن کر حضرت علی (ع) نے عرض کی:

یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان، میرے پاس ایسی کوئی چیز نھیں جو آپ سے پنھان اور پوشیدہ ھو، میراکل اثاثہ ایک تلوار، ایک زرہ اور بکتر اور ایک شتر آب کش ھے۔

حضرت علی (ع) کو حکم دیا گیا کہ آپ (ع) اپنی زرہ بکتر کو فروخت کردیں ، اور اس سے جو رقم حاصل ھو اسے رسول خدا کے حوالے کردیں۔

زرہ بکتر فروخت کرنے سے جو رقم حاصل ھوئی اس میں سے کچھ رسول خدا نے بعض صحابہ کو دی اور کھا کہ اس سے وہ ضروریات زندگی کا سامان خرید لائیں، باقی رقم کو آپ نے بطور امانت حضرت ”ام سلمہ''کے پاس رکہ دیا۔ (بحار الانوار)

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا مھر

مورخین نے لکھا ھے کہ حضرت علی (ع) نے شادی کے لئے جو رقم رسول خدا (ص) کو ادا کی وہ کسی طرح بھی پانچ سو درھم سے زیادہ نہ تھی اور یھی حضرت زھرا (س) کا مھر تھا، چنانچہ اسی رقم سے جھیز اور دلھن کا لباس و سامان آرائش خریدا گیا، نیز اسی رقم سے دعوت ولیمہ کا اھتمام کیا گیا۔

رقم کی یہ مقدار در حقیقت ”مھر سنت“ ھے، اور تمام مسلمانوں کے لئے عمدہ مثال، بالخصوص ان والدین کے لئے جو مھر کی کثیر رقم کا مطالبہ کرکے نوجوانوں کی شادی میں رکاوٹ پیدا کرتے ھیں، اس کے ساتھ ھی یہ ان کے لئے اچھا سبق بھی ھے جو یہ سمجھتے ھیں کہ عورت کی حیثیت کا انحصار مھر کی کثیر رقم اور بھاری جھیز پر ھے۔

رسول خدا (ص) نے اس اقدام کے ذریعہ عام لوگوں کو انسانیت کی اعلیٰ اقدار اور دعوت کے معنوی و روحانی مرتبے کی جانب متوجہ کیا ھے، چنانچہ جب قریش نے یہ اعتراض کیا کہ فاطمہ (س) کو بھت معمولی مھر کی رقم پر علی (ع) کی زوجیت میں دے دیا تو آپ نے فرمایا: یہ اقدام حکم خدا کے ایماء پر کیا گیا ھے، یہ کام میں نے انجام نھیں دیا بلکہ خداوند تعالیٰ کے حکم سے انجام پایا ھے۔

احمد ابن یوسفی دمشقی نے لکھا ھے کہ جب حضرت فاطمہ زھرا (س) کو معلوم ھوا کہ مھر کی رقم اتنی معین کی گئی ھے تو آپ (س) نے اپنے والد محترم آنحضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ ”عام لڑکیوں کی شادی اس وقت طے ھوتی ھے جب مھر کی رقم کے درھم مقرر کر لئے جاتے ھیں، اگر میں بھی ایسا ھی کروں تو میرے اور ان کے درمیان کیا فرق رہ جائے گا، اس لئے میری آپ سے یہ درخواست ھے کہ مھر کی رقم علی (ع) کو ھی واپس کردیجئے اور اس کے عوض خداوند تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ شفاعت کیجئے کہ میرے مھر کی رقم کے صدقہ میں روز قیامت آپ کی امت کے گناھگار بندوں کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10