جنگ بدر کی مختصر تاريخ



یھودی تعداد میں تقریباً سات سو سپاھی تھے جن میں سے تین سو زرہ پوش تھے، پندرہ دن تک مقابلہ کرنے کے بعد انھوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ رسول خدا(ص) نے انھی کی تجویز پر ان کا مال و اسلحہ ضبط کرلیا اور انھیں مدینہ سے باھر نکال دیا۔ (مغازی ج۱، ص۱۷۶،۱۷۸)

”بنی قینقاع“ کے شرپسندوں کو جب اسلحہ سے محروم اور شھر بدر کردیاگیا تو مدینہ میں دوبارہ امن و اتحاد اور سیاسی پائیداری کا ماحول بحال ھوگیا، اس کے ساتھ ھی اسلامی حکومت کے مرکز یعنی مدینہ میں رسول خدا (ص) کی سیاسی حیثیت و رھبرانہ طاقت پھلے سے کھیں زیادہ مستحکم ھوگئی، اس کے علاوہ قریش کے مقابل جو وہ انتقام جوئی کی غرض سے کیا کرتے تھے مسلمانوں کا دفاعی میدان کافی محکم و مضبوط ھوگیا، اور یھی بات قریش کے اس خط سے جو انھوں نے جنگ بدر کے بعد مدینہ کے یھودیوں کو لکھا تھا عیاں ھوتی ھے کہ جب مسلمانوں سے آئندہ انتقام جوئی کی غرض سے جنگ کی جائے تو ان اسلام دشمن عناصر سے جو خود مسلمانوں میںموجود ھیں جاسوسی اور تباہ کاری کا کام لیا جائے۔

رسول خدا Ù†Û’ صرف مدینہ میں خیانت کار اور عھد Ø´Ú©Ù† کا Ú¾ÛŒ قلع قمع نھیں کیا تھا بلکہ ان قبائل پر بھی Ú©Ú‘ÛŒ نظر رکھے ھوئے تھے جو مدینہ Ú©Û’ اطراف میں آباد اور اسلام دشمن تحریکوں نیز سازشوں میں شریک تھے، چنانچہ جب بھی حملے Ú©ÛŒ ضرورت پیش آئی تو آپ Ú©ÛŒ تلوار بجلی Ú©ÛŒ مانند کوندتی ھوئی ان جتھوں پر گرتی، اور ان Ú©ÛŒ سازشوں Ú©Ùˆ ناکام بنا دیتی ”بنی غطفان“ اور ”بنی سلیم“ دو ایسے طاقتور قبیلے تھے جو قریش Ú©Û’ تجارتی راستے پر آباد تھے اور ان کا قریش Ú©Û’  ساتھ سازشی عھد Ùˆ پیمان بھی تھا، ان Ú©Û’ ساتھ جو جنگ ھوئی وہ ”غزوہ بنی سلیم“ Ú©Û’ نام سے مشھور Ú¾Û’ØŒ قبائل ”ثعلبہ''اور ”محارب“ Ú©Û’ ساتھ جو جنگ Ù„Ú‘ÛŒ گئی وہ غزوہ ”ذی امر“ کھلائی، قریش Ù†Û’ جنگ بدر Ú©Û’ بعد اپنا تجارتی راستہ بدل دیا تھا اور بحر احمر Ú©Û’ ساحل Ú©Û’ بجائے وہ عراق Ú©Û’ راستے سے تجارت Ú©Û’ لئے جانے Ù„Ú¯Û’ تھے ان پر جو لشکر Ú©Ø´ÛŒ Ú©ÛŒ گئی وہ ”سریہ۔“ قروہ۔“ Ú©Û’ عنوان سے مشھور ھوئی۔

مسلم سپاہ کی ھوشمندی اور ھر وقت پیش قدمی کے باعث نو عمر اسلامی حکومت اپنی جاسوسی، ھوشیاری اور لشکر کشی کی تعداد اور اھلبیت کی وجہ سے مدینہ کے گرد و نواح میں غالب آگئی، اور اب وہ سیاسی، عسکری طاقت کے عنوان سے منظر عام پر آنے لگی۔

تجارتی راستوں پر مسلمانوں کی مستقل موجودگی کے باعث قریش کی اقتصادی و سیاسی طاقت سلب ھوگئی اور ان کے جتنے بھی تجارتی راستے تھے وہ مسلمانوں کے تحت تصرف آگئے۔

اس عسکری مخابراتی کیفیت کی حفاظت و توسیع اس کے ساتھ ھی اسلام کا فطری و جبلی جذبۂ شجاعت و دلیری اور رسول خدا (ص) کا دانشورانہ دستور العمل ایسے عناصر تھے جن پر اس وقت بھی عمل کیا جاتا تھا جبکہ دین اسلام طاقت کے اعتبار سے اپنے عروج کو پھونچ چکا تھا، تحفظ و توسیع کا اس قدر پاس رکھا جاتا کہ ان مھینوں میں بھی جنھیں ماہ حرام قرار دیا گیا تھا اس مقصد سے غفلت نھیں برتی جاتی تھی۔

رسول خدا (ص) کی دختر نیک اختر کی شادی خانہ آبادی

جنگ بدر کے بعد جو اھم واقعات رونما ھوئے ان میں دین مبین اسلام کی نامور خاتون حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا حضرت علی (ع) کے ساتھ رشتہ ازدواج بھی قابل ذکر واقعہ ھے۔

دور جاھلیت کی ایک ناپسندیدہ رسم یہ بھی تھی کہ عرب بالخصوص شرفاء اپنی بیٹیوں کے رشتے صرف ایسے آدمیوں سے کرتے تھے جنھیں دولتمندی، اقتدار پسندی اور جاہ و مرتبہ کے باعث شھرت حاصل ھوتی تھی۔

اس رسم کی بنیاد پر بعض شریف زادوں اور مقتدر صحابہ نے رسول خدا کی خدمت میں حضرت فاطمہ زھرا علیھا السلام، کے ساتھ اپنی شادی کا پیغام بھیجا، اس مقصد کے لئے انھوں نے گرانقدر مھر ادا کرنے کی بھی پیشکش کی لیکن وہ لوگ اس بات سے بے خبر تھے کہ اسلام کی نظر میں ان کی جاہ و دولت، اشراف زادگی اور قبائلی ناموری کی کوئی قدر و منزلت نھیں ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next