جنگ بدر کی مختصر تاريخ



الف: مال غنیمت اور قیدیوں کا انجام

جنگ بدر میں ایک سو پچاس (۱۵۰) اونٹ، دس اور بعض روایات کے مطابق تیس گھوڑے، بھت سے ھتھیار اور وہ کھالیں جنھیں قریش تجارت کے لئے لے جارھے تھے مسلمانوں کو غنیمت میں ملیں، مگر اس مال کی تقسیم پر ان کے درمیان اختلاف ھوگیا جس کا سبب یہ تھا کہ انھیں معلوم تھا کہ مال غنیمت میں ان مجاھدین کا بھی حصہ ھے جنھوں نے جنگ میں شرکت کی تھی؟ یا یہ ان سپاھیوں کا بھی حصہ ھے جو دشمن سے نبرد آزما ھوئے تھے؟ اس مال غنیمت میں آیا سب کا حصہ برابر تھا یا پیدل اور سوار سپاہ کے درمیان کوئی فرق و امتیاز رکھا گیا تھا؟ (المیزان ج۹ ص۹)

یہ معاملہ پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں پیش کیا گیا اور سورۂ ”انفال“ کی پھلی آیت نازل ھوئی جس نے مسئلۂ مال غنیمت کو روشن کردیا۔

یسئلونک عن الانفال۔ قل الانفال للّٰہ و الرسول فاتقو اللّٰہ و اصلحوا ذات بینکم اطیعوا اللّٰہ و رسولہ ان کنتم مومنین۔

(تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ھیں، کھہ دیجئے یہ انفال تو اللہ اور اس کے رسول کے ھیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات میں فرق نہ آنے دو، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ھو)

اس آیہٴ شریفہ کی بنیاد پر مال غنیمت خدا اور رسول کا حق ھے، لیکن پیغمبر اکرم (ص) نے اس کے تین سو تیرہ حصے کرکے اسے سب کے درمیان تقسیم کردیا تقسیم کے اعتبار سے ھر دو سوار سپاھیوں کے لئے دو اضافی حصے مقرر کئے گئے تھے،شھداء کا حصہ ان کے پس ماندگان کو دے دیا گیا۔ایک روایت یہ بھی ملتی ھے کہ وہ لوگ جو رسول اکرم (ص) کے حکم سے مدینہ میں اپنی خدمات انجام دینے کے لئے مقرر کئے گئے تھے اور وہ وھیں مقیم تھے ان کا بھی حصہ مقرر کیا گیا تھا۔ (مغازی ج۱۷، ص۱۰۰ و ۱۰۱)

رسول خدا (ص) کے حکم کے مطابق قیدیوں کو مدینہ لے جایا گیا، راستے میں پڑنے والی منزلوں میں سے ایک پر دو آدمیوں ”نصر بن حارث“ اور ”عقبہ بن ابی معیط“ کو رسول خدا کے حکم سے قتل کردیا گیا۔ (السیرة النبویہ ج۲، ص۲۹۸)

مذکورہ اشخاص کے قتل کئے جانے کی وجہ شاید یہ ھو کہ یہ دونوں ھی کفر کے سرغنہ اور اسلام کے خلاف سازشیں تیار کرنے میں پیش پیش رھا کرتے تھے۔ انھوں نے رسول خدا(ص) اور مسلمانوں کو جس بری طرح تکالیف پھونچائی تھیں اس کی ایک طویل داستان ھے، اگر یہ لوگ آزاد ھوکر واپس مکہ پھونچ جاتے تو یہ امکان تھا کہ وہ از سر نو اسلام کی بیخ کنی کے لئے سازشوں میں مشغول ھوجاتے۔

چنانچہ ان کا قتل کیا جانا اسلام کی مصلحت کے تحت تھا تاکہ انتقام لینے کی غرض سے ان تمام قیدیوں کو فدیہ وصول کرکے جو کہ (ھزار سے چار ھزار درھم تک تھا) بتدریج آزاد کردیا گیا۔ ان میں جو لوگ نادار تھے مگر لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے انھیں آزاد کرنے کی یہ شرط رکھی کہ اگر وہ دس مسلمانوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھا دیں گے تو انھیں آزاد کر دیا جائے گا۔

ان قیدیوں میں چند اشخاص رسول خدا (ص) اور حضرت علی (ع) کے رشتہ دار بھی تھے چنانچہ رسول خدا(ص) کے چچا جناب عباس اپنا اور ”عقیل“ و ”نوفل“ نامی اپنے دو بھتیجوں کا فدیہ ادا کرکے آزاد ھوئے، اگرچہ ان لوگوں نے پیغمبر اکرم (ص) کے نبی ھونے کی شھادت بھی دے دی تھی، تمام قیدیوں میں یھی افراد تھے جو دین اسلام سے مشرف ھوکر واپس مکہ پھونچے۔ (الصحیح من سیرة النبی ج۲، ص۲۴۳ ،۲۵۷)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next