حضرت امام حسين عليه السلام



          معاہدہ Ú©Û’ مطابق آپ سے Ù„Ú‘Ù†Û’ Ú©Û’ لیے شام سے ایک ایک شخص آنے لگا اورآپ اسے فناکے گھاٹ اتارنے Ù„Ú¯Û’ سب سے پہلے جوشخص مقابلہ Ú©Û’ لیے نکلاوہ ثمیم ابن قحطبہ تھا آپ Ù†Û’ اس پربرق خاطف Ú©ÛŒ طرف حملہ کیا اوراسے تباہ وبربادکرڈالا،یہ سلسلہ جنگ تھوڑی دیرجاری رہا اورمدت قلیل میں کشتوں Ú©Û’ پشتے الگ گئے اورمقتولین Ú©ÛŒ تعدادحدشمارسے باہرہوگئی یہ دیکھ کرعمرسعدنے لشکروالوں کوپکارکرکہاکیادیکھتے ہوسب مل کریکبارگی حملہ کردو، یہ علی کاشیرہے اس سے انفرادی مقابلہ میں کامیابی قطعا ناممکن ہے ،عمرسعدکی اس آوازنے لشکرکے حوصلے بلندکردئیے اورسب Ù†Û’ مل کر یکبارگی حملہ کافیصلہ کیا آپ Ù†Û’ لشکر Ú©Û’ میمنہ اورمیسرہ کوتباہ کردیاآپ Ú©Û’ پہلے حملہ میں ایک ہزارنوسوپچاس دشمن قتل ہوئے اورمیدان خالی ہوگیا ابھی آپ سکون نہ لینے پائے تھے کہ اٹھائیس ہزاردشمنوں Ù†Û’ پھرحملہ کردیا،اس تعدادمیں چارہزارکمانڈرتھے اب صورت یہ ہوئی کہ سورا،پیادے اورکمانڈروں Ù†Û’ ہم آہنگ وعمل ہوکرمسلسل اورمتواتر حملے شروع کردئیے اس موقع پرآپ Ù†Û’ جوشجاعت کاجوہردکھلایااس Ú©Û’ متعلق مورخین کاکہناہے کہ سربرسنے Ù„Ú¯Û’ دھڑگرنے Ù„Ú¯Û’ ،اورآسمان تھرتھرایا زمین کانپی، صفیں الٹیں، پرے درہم برہم ہوگئے۔

اللہ رے حسین کاوہ آخری جہاد

ہروارپرعلی ولی دے رہے تھے داد

کبھی میسرہ کوالٹتے ہیں،کبھی میمنہ کوتوڑتے ہیں ،کبھی قلب لشکرمیں درآتے ہیں کبھی جناح لشکر پرحملہ فرماتے ہیں شامی کٹ رہے ہیں کوفی گررہے ہیں لاشوں کے ڈھیرلگ رہے ہیں حملے کرتے ہوئے فوجوں کوبھگاتے ہوئے نہرکی طرف پہنچ جاتے ہیںبھائی کی لاش ترائی میں پڑی نظرآتی ہے آپ پکارکرکہتے ہیں اے عباس تم نےیہ حملے نہ دیکھے ،یہ صف آرائی نہ دیکھی افسوس کہ تم نے میری تنہائی نہ دیکھی علامہ اسفرائنی کاکہناہے کہ امام حسین دشمنوں پر حملہ کرتے تھے ،تولشکراس طرح سے بھاگتاتھاجس طرح ٹڈیاں منتشرہوجاتی ہیں نورالعین میں ایک مقام پرلکھاہے کہ امام حسین بہادرشیرکی طرح حملہ فرماتے اورصفوں کودرہم برہم کردیتے تھے اوردشمنوں کواس طرح کاٹ کرپھینک دیتے تھے جس طرح تیزدھارآلہ سے کھیتی کٹتی ہے۔

علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ آنحضرت حملہ گراں افگندہرکہ بادکوشید شربت مرگ نوشیدوبہرجانب کہ تاخت گردہے را بخاک انداخت ،کہ آپ عظیم الشان حملہ کی کوئی تاب نہ لاسکتاتھا جوآپ کے سامنے آتاتھا ،شربت مرگ سے سیراب ہوتاتھا اورآپ جس جانب حملہ کرتے تھے گروہ کے گروہ کوخاک میں ملادیتے تھے (کشف الغمہ ص ۷۸) ۔

مورخ ابن اثیرکابیان ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام کویوم عاشوراداہنے اوربائیں دونوں جانب سے گھیرلیاگیاتوآپ نے دائیں جانب حملہ کرکے سب کوبھگادیا پھرپلٹ کر بائیں جانب حملہ کرتے ہوئے آئے توسب کومارکرہٹادیاخداکی قسم حسین سے بڑھ کرکسی شخص کوایساقوی دل ثابت قدم، بہادرنہیں دیکھاگیاجوشکستہ دل ہو،صدمہ اٹھائے ہوئے ،بیٹوں ،عزیزوں اوردوست، احباب کے داغ بھی کھائے ہوئے ہو، اورپھرحسین کی سی ثابت قدمی اوربے جگری سے جنگ کرسکے، بخدادشمنوں کی فوج کے سواراورپیادے حسین کے سامنے اس طرح بھاگتے تھے جس طرح بھیڑبکریوں کے گلے شیرکے حملہ سے بھاگتے ہیں حسین جنگ کررہے تھے ”اذاخرجت زینب“ کہ جب جناب زینب خیمہ سے نکل آئیں اورفرمایا کاش آسمان زمین پرگرپڑتا اے عمرسعد تودیکھ رہا ہے اورعبداللہ قتل کئے جارہے ہیں ،یہ سن کرعمرسعد روپڑا،آنسوڈاڈھی پربہنے لگے ،اوراس نے منہ پھیرلیا، امام حسین اس وقت خزکاجبہ پہنے ہوئے تھے سرپرعمامہ باندھاہواتھا اوروسمہ کاخضاب لگائے ہوئے تھے ،حسین نے گھوڑے سے گرکر بھی اسی طرح جنگ فرمائی جس طرح جنگ جوبہادرسوارجنگ کرتے ہیں تیروں کامقابلہ کرتے تھے حملوں کوروکتے تھے اورسواورں کے پیروں پرحملہ کرتے تھے اورکہتے تھے ، اے ظالمو! میرے قتل پرتم نے ایکاکرلیاہے قسم خداکی تم میرے قتل سے ایساگناہ کررہے ہوجس کے بعدکسی کے قتل سے بھی اتنے گنہگارنہ ہوگے تم مجھے ذلیل کررہے ہواورخدمجھے عزت دے رہاہے اورسنووہ دن دورنہیں کہ میراخداتم سے اچانک میرابدلہ لے گا،تمہیں تباہ کردے گا تمہاراخون بہائے گاتمہیں سخت عذاب میں مبتلاکرے گا۔(تاریخ کامل جلد ۴ ص ۴۰) ۔

مسٹرجسٹس کارکرن امام حسین کی بہادری کاذکرکرتے ہوئے واقعہ کربلاکے حوالے سے لکھتے ہیںکہ ”دنیامیں رستم کانام بہادری میں مشہورہے لیکن کئی شخص ایسے گزرے گئے ہیں کہ ان کے سامنے رستم کانام لینے کے قابل نہیں ،چنانچہ اول درجہ میں حسین بن علی ہیں کیونکہ میدان کربلامیں گرم ریت پر اورگرسنگی میں جس شخص نے ایساایساکام کیاہو،اس کے سامنے رستم کانام وہی شخص لیتاہے جوتاریخ سے واقف نہیں ہے کسی کے قلم کوقدرت ہے کہ امام حسین کاحال لکھے کس کی زبان میں طاقت ہے کہ ان بہتربزرگواروں کی ثبات قدمی اورتہودوشجاعت اورہزروں خونخوارسواروں کے جواب دینے اورایک ایک کے ہلاک ہوجانے کے باب میں ایسی مدح کرے جیسی ہونی چاہئے کس کے بس کی بات ہے جوان پرواقع ہونے والے حالات کاتصورکرسکے، لشکرمیں گھرجانے کے بعد سے شہادت تک کے حالات عجیب وغریب قسم کی بہادری کوپیش کرتے ہیں، یہ سچ ہے کہ ایک کی دوا، دومشہورہے اورمبالغہ کی یہی حدہے کہ جب کسی کے حال میں یہ کہاجاتاہے کہ تم نے چارطرف سے گھیرلیالیکن حسین اوربہترتن کوآٹھ قسم کے دشمنون نے تنگ کیاتھا چارطرف سے یزیدی فوج جوآندھی کی طرح تیربرسارہی تھی ،پانچواں دشمن عرب کی دھوپ ،چھٹادشمن ریگ گرم جوتنورکے ذرات کی مانندلودے رہی تھی ،اورساتواں اورآٹھواں دشمن بھوک اورپیاس جودغاباز ہمراہی کے مانند جان لیواحرکتیں کررہے تھے پس جنہوں نے ایسے معرکہ میں ہزاروں کافروں کامقابلہ کیا ہوان پربہادری کاخاتمہ ہوچکا،ایسے لوگوں سے بہادری میں کوئی فوقیت نہیں رکھتا (تاریخ چین دفتردوم باب ۱۶ جلد ۲) ۔

امام حسین عرش زین سے فرش زمین پر

آپ پرمسلسل وارہوتے رہے تھے کہ ناگاہ ایک پتھرپیشانی اقدس پرلگا اس کے فورابعدابوالحتوف جعفی ملعون نے جبین مبارک پرتیرماراآپ نے اسے نکال کرپھینک دیااورپوچھنے کے لیے آپ اپنادامن اٹھاناہی چاہتے تھے کہ سینہ اقدس پرایک تیرسہ شعبہ پیوست ہوگیا،جوزہرمیں بجھاہواتھا اس کے بعدصالح ابن وہب لعین نے آپ کے پہلوپراپنی پوری طاقت سے ایک نیزہ مارا جس کی تاب نہ لاکرزمین گرم پرداہنے رخسارکے بل گرے، زمین پرگرنے کے بعدآپ پھرکھڑے ہوئے ورعہ ابن شریک لعین نے آپ کے داہنے شانے پرتلوارلگائی اوردوسرے ملعون نے داہنے طرف وارکیا آپ پھرزمین پرگرپڑے ، اتنے میں سنان بن انس نے حضرت کے ”ترقوہ“ ہنسلی پرنیزہ مارااوراس کوکھینچ کر دوسری دفعہ سینہ اقدس پرلگایا، پھراسی نے ایک تیرحضرت کے گلوئے مبارک پرمارا۔

ان پیہم ضربات سے حضرت کمال بے چینی میں اٹھ بیٹھے اورآپ نے تیرکواپنے ہاتھوں سے کھینچا اورخون ریش مبارک پرملا، اس کے بعدمالک بن نسرکندی لعین نے سرپرتلوارلگائی اوردرعہ ابن شریک نے شانہ پرتلوارکاوارکیا،حصین بن نمیرنے دہن اقدس پرتیرمارا،ابویوب غنوی نے حلق پرحملہ کیا نصربن حرشہ نے جسم پرتیرلگائی صالح ابن وہب نے سینہ مبارک پرنیزہ مارا۔

یہ دیکھ کرعمرسعدنے آوازدی اب دیرکیاہے ان کاسرکاٹ لو، سرکاٹنے کے لیے شیث ابن ربیع بڑھا، امام حسین نے اس کے چہرہ پرنظرکی اس نے حسین کی آنکھوں میںرسول اللہ کی تصویردیکھی اورکانپ اٹھا،پھرسنان ابن انس آگے بڑھا اس کے جسم میں رعشہ پڑگیا وہ بھی سرمبارک نہ کاٹ سکا یہ دیکھ کر شمرملعون نے کہا یہ کام صرف مجھ سے ہوسکتاہے اوروہ خنجرلیے ہوئے امام حسین کے قریب آکرسینہ مبارک پرسوارہوگیا آپ نے پوچھاتوکون ہے؟ اس نے کہامیں شمرہوں ،فرمایاتومجھے نہیں پہچانتا ،اس نے کہا،”اچھی طرح جانتاہوں“ تم علی وفاطمہ کے بیٹے اورمحمدکے نواسے ہو، آپ نے فرمایاپھرمجھے کیوں ذبح کرتاہے اس نے جواب دیا اس لیے کہ مجھے یزیدکی طرف سے مال ودولت ملے گا(کشف الغمہ ص ۷۹) ۔ اس کے بعدآپ نے اپنے دوستوں کویادفرمایا اورسلام آخری کے جملے اداکئے۔

جب آپ اس کی شقی القلبی کی وجہ سے مایوس ہوگئے توفرمانے لگے ائے شمرمجھے اجازت دیدے کہ میں اپنے خالق کی آخری نمازعصراداکرلوں اس نے اجازت دی آپ سجدہ میں تشریف لے گئے (روضة الشہداء ص ۳۷۷)﷼

اورشمرنے آپ کے گلومبارک کوخنجرکے بارہ ضربوں سے قطع کرکے سراقدس کونیزہ پربلندکردیاحضرت زینب خیمہ سے نکل پڑیں ،زمین کانپنے لگی، عالم میں تاریکی چھاگئی ،لوگوں کے بدن میں کپکپی پڑگئی،آسمان خون کے آنسورونے لگا جوشفق کی صورت سے رہتی دنیاتک قائم رہے گا(صواعق محرقہ ص ۱۱۶) ۔

اس کے بعدعمرسعدنے خولی بن یزیداورحمیدبن مسلم کے ہاتھوں سرمبارک کربلاسے کوفہ ابن زیادکے پاس بھیج دیا (الحسین ازعمربن نصرص ۱۵۴) امام حسین کی سربریدگی کے بعدآپ کالباس لوٹاگیا،اخنس بن مرتدعمامہ لے گیا اسحاق ابن حشوہ قمیص،پیراہن لے گیا ،ابحربن کعب پائجامہ لے گیا اسودبن خالدنعلین لے گیاعبداللہ ابن اسیدکلاہ لے گیا،بجدل بن سلیم انگشتری لے گیا قیس بن اشعث پٹکالے گیا عمربن سعدزرہ لے گیا جمیع بن خلق ازدی تلوارلے گیا اللہ رے ظلم ایک کمربندکے لیے جمال معلون نے ہاتھ قطع کردیا ایک انگوٹھی کے لیے بجدل نے انگلی کاٹ ڈالی۔

اس Ú©Û’ بعددیگرشہداء Ú©Û’ سرکاٹے گئے اورلاشوں پرگھوڑوے دوڑانے Ú©Û’ لیے عمرسعدنے لشکریوں کوحکم دیادس افراداس اہم جرم خدائی Ú©Û’ لیے تیارہوگئے جن Ú©Û’ نام یہ ہیں کہ اسحاق بن حویہ، اطنس بن مرثد، حکیم بن طفیل،عمروبن صبیح ،رجابن منقذ،سالم بن خثیمہ صالح بن وہب، واعظ بن تاغم ،ہانی مثبت،اسید بن مالک ،تورایخ میں ہے کہ ”فداسواالحسین بحوافرخیولہم حتی رضواظہرہ وصدرہ “ امام حسین Ú©ÛŒ لاش کواس طرح Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘ÙˆÚº Ú©ÛŒ ٹاپوں سے پامال کیاکہ آپ کاسینہ اورآپ Ú©ÛŒ پشت Ù¹Ú©Ú‘Û’ Ù¹Ú©Ú‘Û’ ہوگئی بعض مورخین کاکہناہے کہ جب ان لوگوں Ù†Û’ چاہاکہ جسم کواس طرح پامال کردیں کہ بالکل ناپیدہوجائے توجنگل سے ایک شیرنکلااوراس Ù†Û’ بچالیا (دمعة ساکبة ص Û³ÛµÛ°) علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام Ú©ÛŒ شہادت Ú©Û’ فورابعدوہ مٹی جورسول خدامدینہ میں ام سلمہ کودے گئے تھے خون ہوگئی (صواعق محرقہ Û±Û±Ûµ) اوررسول خدا،ام سلمہ Ú©Û’ خواب میں مدینے پہنچے ان Ú©ÛŒ حالت یہ تھی وہ بال بکھرائے ہوئے خاک سرپرڈالے ہوئے تھے ام سلمہ Ù†Û’ پوچھاکہ آپ کایہ کیاحال ہے؟ فرمایا”شہدت قتل الحسین انفا“ میں ابھی ابھی حسین Ú©Û’ قتل گاہ میں تھا اوراپنی آنکھوں سے اسے ذبح ہوتے ہوئے دیکھاہے (صحیح ترمذی جلد Û² ص Û³Û°Û¶ ،مستدرک حاکم جلد Û´ ص Û±Û¹ ،تہذیب التہذیب جلد Û² ص Û³ÛµÛ¶ ،ذخائرالعقبی ص Û±Û´Û¸) Û” 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12