بچوں کے ساتھ پیغمبر اسلام(صلی الله علیه و آله وسلم)کا سلوک



یہ یاد دہانی کرا دینا ضروری ہے کہ،بچوں کو مشکلات سے آشناکرنا بچے کی ناراضگی کا سبب نہیںبنناچاہئے ۔یعنی بچے کے ذمہ کئے جانے والے کام اس کی توانائی اور طاقت سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں،اس لئے بچے کی طاقت و توانائی کومد نظر رکھنا ضروری ہے ۔

رسول خدا(صلی الله علیه و آله وسلم)نے اس سلسلہ میںدرج ذیل چار نکات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے:

١۔بچہ نے اپنی طاقت بھر جو کام انجام دیا ہے اسے قبول کرنا ۔

٢۔جو کام بچے کی طاقت سے باہر ہو بلکہ اس کے لئے نا قا بل برداشت ہو اس کام کا اس سے مطالبہ نہ کرنا ۔

٣۔بچے کوگناہ اور سر کشی پر مجبور نہ کرنا ۔

..............

١١۔وسائل الشیعہ ج٥،ص١٢٦

٤۔اس سے جھوٹ نہ بولنااور اس کے سامنے فضول اور احمقانہ کام انجام نہ دینا ۔(١٢)

دوسری ر وایتوں میں یوں نقل ہوا ہے:

''جب رسول خدا(صلی الله علیه و آله وسلم)سات سال کے تھے،ایک دن اپنی دایہ(حلیمہء سعدیہ)سے پو چھا:میرے بھائی کہاں ہیں؟(چونکہ آپ(صلی الله علیه و آله وسلم)حلیمہ سعدیہ کے گھر میں تھے،اس لئے ان کے بیٹوں کو بھائی کہتے تھے)انہوں نے جواب میں کہا:پیارے بیٹے!وہ بھیڑبکریاں چرانے گئے ہیں،جو خداوند متعال نے ہمیں آپ(صلی الله علیه و آله وسلم)کی بر کت سے عطا کی ہیں ۔آپۖنے کہا:اما جان آپ نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا ! ماں نے پو چھا:کیوں؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next