فلسطینی انتفاضہ(تحریک)، انقلاب اسلامی ایران کا نتیجہ



پہلی عالمی جنگ کے اختتام سے قبل، فرانس اور انگلینڈ نے ایک معاہدہ کے تحت، عثمانی بادشاہت کی سرزمین کو اپنے درمیان تقسیم کرلیا تھا، اس بنیاد پر عراق، اُردن، حجاز اور فلسطین، انگلینڈ کی حکومت کے تحت اور لبنان، سیریا (شام)، فرانس کے زیر تسلُّط آگئے تھے، جس کی وجہ سے عربوں کے اوپر عثمانی سلطنت کے استبدادی سایہ کے رفع ہونے کے ساتھ، مغربی استعمار کے گھٹاٹوپ بادل سایہ فگن ہوگئے تھے ۔

 

مقدمہ

عثمانی سلطنت، خلافت اسلامی کی آخری کڑی شمار ہوتی تھی کہ جس کی قلمرو حکومت میں یورپ کے بالکان علاقہ کا ایک وسیع حصّہ، ایشیاء وسطیٰ کا عربی علاقہ اور شمالی افریقا منجملہ فلسطین کی سرزمین تھی ۔ دنیائے اسلام (اہل سنت) میں عثمانیوں نے پانچ صدی حکومت کی ۔ عثمانیوں کا ظہور، عربوں سے عثمانی ترکوں کی طرف اقتدار کے منتقل ہونے کا باعث ہوا ۔ روس، انگلینڈ اور فرانس کی استعماری رقابت اور عثمانی حکومت کا اسٹراٹیجکی رول سبب ہوا کہ اس سلطنت کی سرزمین یورپی طاقتوں کے لئے لقمۂ تر بن جائیں اور دوسری طرف عثمانیوں کے اندرونی کمزوریوں اور جوان ترکوں کے ظہور نے اسلامی خلافت کے انحلال کا مقدمہ فراہم کیا، پہلی عالمی جنگ عظیم کی چوٹ نے ''بیمار یورپ'' کے بے جان بنادیا تھا ۔

پہلی عالمی جنگ Ú©Û’ اختتام سے قبل، فرانس اور انگلینڈ Ù†Û’ ایک معاہدہ Ú©Û’ تحت عثمانی بادشاہت Ú©ÛŒ سرزمین Ú©Ùˆ اپنے درمیان تقسیم کرلیا تھا، اس بنیاد پر عراق، اردن، حجاز اور فلسطین انگلینڈ Ú©ÛŒ حکومت Ú©Û’ تحت اور لبنان، سیریا(شام)ØŒ فرانس Ú©Û’ زیر تسلط آگئے تھے، جس Ú©ÛŒ وجہ سے عربوں Ú©Û’ اوپر عثمانی سلطنت Ú©Û’ استبدادی سایہ Ú©Û’ رفع ہونے Ú©Û’ ساتھ، مغربی استعمار Ú©Û’ گھٹاٹوپ بادل سایہ فگن ہوگئے اور کئی دہائیوں تک ان Ú©Ùˆ اپنا غلام بنائے رکھا Û” اس مدّت میں وہ اپنی حکومت Ú©ÛŒ مضبوطی Ú©ÛŒ کوشش کرتے رہے Û” اس دوران فلسطین ایک خاص، خصوصیت کا حامل تھا وہ یہ تھی کہ اس سرزمین پر بین الاقوامی صیہیونیزم Ù†Û’ (سن ١٨٩٧ء میں سوئیس Ú©Û’ بال شہر میں) انگلینڈ Ú©ÛŒ معاونت سے یہودیوں Ú©Û’ تسلط Ú©ÛŒ اسکیم بنائی تھی Û” اس مقصد Ú©Û’ تحت پوری دنیا Ú©Û’ یہودیوں Ú©Ùˆ فلسطین آنے Ú©ÛŒ دعوت دی گئی تاکہ اس سرزمین Ú©ÛŒ ملی جلی آبادی، یہودیوں Ú©ÛŒ اکثریت میں تبدیل ہو جائے اور ان کا فلسطین پر تسلط کا زمینہ فراہم ہوسکے Û”  ١٩٢٠ء سے ١٩٤٠ تک Ú©ÛŒ دہائیوںمیں یہ اقدامات پوری شدّت سے جاری رہے آخرکار سن ١٩٤٨ء میں حکومت اسرائیل Ù†Û’ اپنی موجودیت کا اعلان کردیا کہ جو، اب تک اسلام Ú©Û’ بدن Ú©Ùˆ ایک متعفن Ù¾Ú¾ÙˆÚ‘Û’ Ú©ÛŒ طرح نقصان پہنچا رہا ہے Û”

 

تحریک سے پہلے فلسطین کے عوام کی جنگ

١٩٤٨ء (١٣٢٧شمسی)میں صیہیونیسٹی حکومت کی تشکیل سے قبل فلسطینی عوام کی جنگ میں اسلامی رنگ موجود تھا اور ان کی جنگیں مذہبی علماء جیسے حاج محمد امین الحسینی مفتی اعظم بیت المقدس اور رئیس ''شورای مسلمین''فلسطین کہ جو شرعی عدالت اور اوقاف کے اوپر بھی ناظم تھے، اور شیخ عزالدین قسّام اور عبدالقادر حسینی کی قیادت میں برقرار تھی ۔ لیکن فلسطین میں صیہیونیستی حکومت کی تشکیل اور استقرار اور اس ملک کی عوام کے آوارہ وطن ہونے کے بعد یہ اسلامی رنگ ختم ہوگیا لہٰذا عرب ممالک کے حکمرانوں نے عربیت کا بنیاد پر مسلمانوں کے عمومی افکار کے زیر اثر صیہیونیسٹوں کے خلاف حملوں کا پروگرام بنایا ۔

ابتدا میں فلسطینی عوام منظم نہیں تھے اور ان کی چشم اُمید عرب ممالک پر لگی ہوئی تھی کہ وہ فلسطین کو اُن کو واپس پلٹادیں ۔ ١٩٦٠ء کی دہائی کے اوائل میں کچھ سیاسی، فوجی اور اجتماعی تنظیمیں بنائی گئیں، ان میں سے سب سے مہم تنظیم فلسطین کی آزادی بخش تنظیم PLOکے نام سے ١٩٦٤ئ میں وجود میں آئی جس کی سربراہی میں آٹھ چھاپہ مار تنظیمیں اور چند ایک غیرجنگی تنظیمیں کہ جو تعلیمی، اجتماعی، طبی، ثقافتی اور مالی امور سے مربوط تھیں کام کرتی تھیں(٢)

١٩٦٧ء (عربوں Ú©ÛŒ شکست) اور  ١٩٨٢ء (لبنان پر اسرائیل کا حملہ) Ú©Û’ درمیان، فلسطینی جنگی گروہوں اور تنظیموں Ú©ÛŒ اکثریت، ختم ہوگئیں یا وہ ایک دوسرے میں منضم ہوگئیں یا Ù¹Ú©Ú‘Û’ Ù¹Ú©Ú‘Û’ ہوگئیں Û” یہ تنظیمیں عمدہ طور سے عربی نیشالیزم، سوشیلیزم اور مارکسیزم Ú©Û’ تحت کام کرتیں اور ان میں سے ہر ایک عربی حکومتوں Ú©Û’ زیر حمایت ہوتی اور اسی حکومت Ú©ÛŒ علاقہ ای سیاستوں سے وابستہ ہوتی تھی، نتیجہ میں بین الاقوامی اور مقامی سطح پر ان Ú©Û’ مقابلے انہی حکومتوں Ú©Û’ تحت تاثیر ہونے Ú©ÛŒ وجہ سے اپنے اصلی ہدف سے خارج ہوگئے تھے اور ملّت فلسطین ØŒ بیرونی طاقتوں پر نگاہ رکھنے اور پرطمطراق گروہوں، عربی حکومتوں، عالمی سیاستوں اور بین الاقوامی اداروں پر اعتماد کرنے Ú©Û’ سبب افسردگی اور نااُمیدی کا شکار ہوگئی تھی Û”



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next