فلسطینی انتفاضہ(تحریک)، انقلاب اسلامی ایران کا نتیجہ



بیسویں صدی کے آخر میں فلسطینی قوم کے قیام (انتفاضہ) کی مہم خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت مسجدوں میں مبارزوں کا پروگرام ترتیب دینا اور تحریک کو اس مقدس مکان سے شروع کرنا ہے، لوگوں کے مختلف طبقے مسجدوں میں اجتماع کرتے جس سے وہ سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی وغیرہ موضوعات سے آگاہ ہوتے ہیں، یہ لوگ اپنی تقدیر اور اپنے وظائف اور دینی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں بہت حسّاس ہیں اور ان کو اسلامی فکر اور دینی اندیشہ، مبارزہ کی طرف اُکساتا ہے ۔

عوام میں اسلام گرائی اور اسلامی تحریک کے حونصلے کی افزائش کے ساتھ مقبوضہ فلسطین میں مسجدوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، آخری ٣٥ سالوں میں اوسطاً ہر سال دریائے اُردن کے مغربی کنارے میں ٢٠مسجدیں تعمیر ہوئی اور ان کی تعداد چارسو سے بڑھ سات سو ہوگئی ہے، ایسے ہی غزہ کی پٹی میں آخری دو سالوں کے اندر مسجدوںکی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے ۔ محلّے کی مسجد روزانہ کے سیاسی مسائل کی بحث وگفتگو کی جگہ بن گئی ہے، قابضین کے خلاف مظاہروں کا نقطہ آغاز مسجدیں ہی ہوتی ہیں، کچھ اجتماعی فعّالیتیں بھی جیسے غریب اور فقیر لوگوں کی کمک، بچوں کے مکتب کی تاسیس، روزگاری کے ادارے کی ترتیب مسجدوںسے ہی انجام پاتی ہے(١١)

دنیا کی تمام سیاسی خبررساں ایجنسیوں کے اعتراف کے مطابق، انتفاضہ مسجد سے شروع ہوا اور اس نے ہر گھر کو مسجد بنادیا، اس طرح مسجد الاقصیٰ جوانوں کی مقاومت کے مرکز میں تبدیل ہوگئی اور گلدستوں اور مناروں سے ''اﷲاکبر'' کی دلنشین اور دشمن شکن آواز نے قابضوں کو وحشت میں ڈال دیا ہے(١٢) سن ٢٠٠٠ء کے آخری مہینوں میں انتفاضہ کا دوسرا مرحلہ جواب تک چل رہا ہے اور ''انتفاضة الاقصیٰ'' سے مشہور ہے مسجد اقصیٰ سے شروع ہوا اور اریل شارون کی بے عزّتی کا سبب ہوا ۔

فلسطینی عوام کے قیام (انتفاضہ) میں مسجدوں کے رول کو جناب ''شیخ محمد حسین'' مسجد اقصیٰ کے امام جماعت، ایک انٹریو کے درمیان اس طرح بیان کرتے ہیں:

حال حاضر میں مسجد نے مسلمان گروہوں کے لئے ایک انجمن کی صورت اختیار کرلی ہے، نیز وہ الہام وثبات کا سرچشمہ اور قابض دشمنوں سے مقابلہ کے لئے ان کے اتحاد کا مرکز بن گئی ہیں،مسجد نے اس کردار کو ادا کرتے ہوئے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور مسلمانوں کو مشکلوں سے مقابلہ کرنے کا بہت زیادہ حوصلہ دیا ہے اور ثابت کردیا ہے کہ انسان ہر چیز سے زیادہ اپنے عقیدہ کے ذریعہ زندہ ہے، اس ملّت کا سب سے بڑا پشتیبان ان کا اسلامی عقیدہ ہے جو ان کے پاس پہلے نہیں تھا ۔ انسان زندگی کے بڑے حادثوں میں اپنی پہچان بھی کھو بیٹھتا ہے، لیکن فقط دین اور عقیدہ ہی ایسی چیز ہے جو باقی رہتی ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی سازش اور اغماض کا امکان نہیں ہے(٣)

٣۔ جنگ کا باہر سے مقبوضہ سرزمین میں منتقل ہونا

 Ø§Ù†ØªÙØ§Ø¶Û سے پہلے عمدہ طور سے مبارزہ کا پلان مقبوضہ سرزمین Ú©Û’ باہر اور ایسے گروہوں اور تنظیموں Ú©Û’ ذریعہ انجام پاتا ہے تھا کہ جو خود بیرونی ملکوں Ú©Û’ تحت تاثیر تھے اور اجرائی مرحلے میںاکثر وبیشتر فلسطین سے باہر حملے کئے جاتے تھے لیکن انتفاضہ Ú©Û’ زمانۂ شروع سے تمام حملے مقلوضہ سرزمین Ú©Û’ رہنے والوں Ú©Û’ ذریعہ اور مقبوضہ فلسطین Ú©Û’ دیہاتوں اور شہروں میں انجام دیئے جاتے ہیں Û”

٤۔ عوامی اور وسیع پیمانے پر مقابلہ ہونا

اگرچہ صیہیونیسٹ اورکچھ دوسرے عناصر اپنے اس خیال میں کامیاب ہوگئے تھے کہ وہ ایسا کام کریں جس سے فلسطینی مقابلہ، سیاسی تنظیموں اور گروہوں میں محدود ہوکر رہ جائے تاکہ اُن کے ساتھ سازباز کے لئے مذاکرہ کی میز پر بیٹھا جاسکے، لیکن انتفاضہ نے اس حد کو توڑدیا اور اسرائیلیوں کے ساتھ مقابلہ کو ملکی پیمانہ تک پہنچادیا ۔

آج ہر شخص اسرائیلیوں کے ساتھ مقابلے کو ایک واجب فریضہ جانتا ہے، جو کوئی بھی نعرہ لگا سکتا ہو یا پتھر پھینک سکتا ہو چاہے دس سالہ بچّہ ہو یا ٧٠ سالہ بوڑھا وہ اس انتفاضہ کی اسلامی تحریک میں شریک ہے، اسلام اور ان مقابلوں کے اسلامی ہونے کے بجرء کوئی اور شئے لوگوں کو اس طرح کی لڑائی لڑنے پر آمادہ نہیں کرسکتی ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next