فلسطینی انتفاضہ(تحریک)، انقلاب اسلامی ایران کا نتیجہ



موصوف نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے اسلامی انقلاب کے بنیادی مفاہیم اور اس کے نعروں کا تذکرہ کیا، وہ کہتا ہے:

تمھارے انقلاب کے ظہور سے ہماری ملّت سمجھ گئی ہے کہ ان کی راہ فقط جہاد اور مبارزہ کی راہ ہے، یہ وہی راہ ہے جس کو پیغمبر اسلامۖ اور صدر اوّل کے مومنین نے طے کیا تھا ۔ ہماری ملت نے سمجھ لیا کہ مسلّحانہ مبارزہ کی راہ ایک سخت اور طولانی راہ ہے ۔ آج ہماری قوم کے وہی نعرے ہیں جس کے منادی آپ لوگ تھے اور وہ بلند آواز سے نعرے لگاتے ہیں: ''الالٰہ الّا اﷲ، ''اﷲ اکبر''، ''فتح اسلام کی ہے''

شیخ اسعد تمیمی کہ جو فلسطینی رہبران میں سے ایک  ہے، اسلامی دنیا خصوصاً فلسطین میں انقلاب Ú©ÛŒ معنوی تاثیر Ú©Û’ سلسلہ میں کہتا ہے:

ایران Ú©Û’ انقلاب تک، اسلام نبرد Ú©Û’ میدان سے غائب تھا، مثلاً جہاد Ú©ÛŒ جگہ ''نضال''  اور ''کفاح'' جیسے کلمات Ú©Ùˆ استعمال کیا جاتا تھا.... ایران Ú©Û’ انقلاب Ù†Û’ قدیمی حقیقت ''اسلام، راہ حل اور جہاد، اصلی طریقہ ہے'' Ú©Ùˆ ہماری فلسطینی سرزمین میں داخل کردیا ہے(Ù¦)

شیخ عبدالعزیز عودہ فلسطین کا نامور روحانی کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جہاد اسلامی کا مرکزی اور روحانی رہبر ہے، وہ معتقد ہے: خمینی کا انقلاب مسلمان ملتوں کے اتحاد کی بیداری کے لئے مہمترین اور جدی ترین کوشش ہے.... ایران وہ واحد ملک تھا کہ واقعاً جس نے فلسطین کے مسئلہ میں مرکزی کردار ادا کیا ۔ (٧)

٢۔ عالَمی پیمانہ پر دینی تحریکوں کا احیاء اور عالم اسلام کی بیداری

١٩٧٩ئ مطابق ١٣٥٧ھ شمسی میں ایران کے اسلامی انقلاب سے دین، سیاسی اور اجتماعی میدانوں میں پہچانے جانے لگا، خصوصاً اسلام دنیا میں کہ جس میں مسلمان اپنی شناخت کے ساتھ دشمن کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوگئے اور تدریجاً علاقہ میں بہت سی سیاسی اور اجتماعی تبدیلیاں رونما ہوگئیں، کہ جس کو ''اصول گرائی اسلامی'' سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہ ماجرا بہت سے متفکروں اور اندیشمندوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہوا اور اس نے مقابلہ کی جہت خصوصاً فلسطینیوں کے مقابلہ کی جہت کو بدل دیا ۔ اسلامی ظواہر جیسے حجاب اور مسجدوں میں حاضری رائج ہوگیا اور مسجدیں سرگرمیوں اور مقابلوں کا مرکز قرار پانے لگی ۔

فلسطینی یونیورسٹیوں میں بھی دوبارہ اسلامی انجمنیں بنائی جانے لگیں اور اسلامی فعّالتیں، دیگر تمام تفکرات اور اندیشوں سے آگے بڑھ گئیں، یونیورسٹیوں میںاسلامی تحریکات جیسے التجاح، بیرزیت، غزہ، بیت المقدس اور الخلیل نے قابل توجہ ترقی کی(٨)

٣۔ فلسطینی تنظیموںکے مبارزات کا بند راستہ تک پہنچ جانا

فلسطین پر قبضے کے ٥٠ سال پورے ہورہے تھے اس مدت میں بہت سے فلسطینی گروہوں نے اسرائیل اور صیہیونیزم کے خلاف مبارزہ کے شعار اور فلسطینی سرزمین کی آزادی کے نعرہ سے اپنی موجودیت کا اعلان کیا، ان کے وسیع پیمانہ پر پروپیکنڈے اور خودنمائی میں کہ جس کو وہ خود بھی اور ان کے دشمن بھی دنیا کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے، اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ فلسطین کے مظلوم عوام کے حقوق سے دفاع کرتے ہوئے کوئی ایک کارنامہ بھی اپنی یادگار کے طور پر چھوڑ دیتے ۔ فلسطینی انجمنوں اور گروہوں میں سے کسی بھی انجمن یا گروہ نے صیہیونیزم کے خلاف جتنے بھی مبارزے انجام دیئے ان میں سے کسی کوبھی باقی نہ رکھا جاسکا ۔ ان کے مبارزات فقط پروپیکنڈے کی حد تک تھے اور فلسطین کی باہری دنیا میں سیاسی کھیل، لیکن فلسطین کے اندر ان کے کارنامے ایذائی عملیات تک محدود تھے جس کا فلسطین کی تقدیر میں کوئی خاص اثر نہیں تھا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next