عقیدہ مہدویت کے اجزا و عناصر سے متعلق بحث



خدایا امید کی بجلی کب چمکی گی

”امید“ ایک ایسی زرہ ھے کہ جو بھی اسے پھن لیتا ھے اس کا جسم محفوظ ھوجاتا ھے اور ”یاس“ پیر کی ایسی بیماری ھے کہ جو بھی اس میں مبتلا ھوجا تا ھے، سرنگوں ھوجاتا ھے، جُبران خلیل جُبران تمام انسانوں کی زبانی اپنے بارے میں اس طرح خطاب کرتا ھے:اے میں، اگر امید نہ رکھتا ھوتا تو اس آواز پر کان نھیں دھرتا جو زمانہ مجھے سناتا ھے، بلکہ فوراً اپنی زندگی کے سلسلہ کو قطع کردیتا اور عرصہ حیات میں اپنے وجود کی نمائش پوشیدہ راز میں اس طرح تبدیل ھو جاتی کہ قبریں اسے ڈھانپ لیتیں۔۔۔ اگر امید کی لھر نہ ھو تی تو آدمی کے لئے زمانہ کس درجہ تنگ ھوتا۔

مہدی، ساحل امید

قابل اھمیت بات یہ ھے کہ اگرچہ امیدواری اور یاس و ناامیدی سے اجتناب، یقینی اور پوری طرح واضح و روشن نیز قابل قبول ایک کلی اصل ھے لیکن کوئی ایسی اصلی اور حقیقی چیز ھونا چاہئے جس کے ملنے کی امید ھو جس سے دل لگانے کی آرزو ھو تاکہ امید سے متعلق شی ایک امرحقیقی ھو نہ خیالی اور وھمی کیونکہ قابل اعتماد اور مستحکم امید ایک فرد یا سماج کے دل میں دانہ نھیں ڈالتی اور نہ ھی اپنا سایہ کرتی ھے جب تک کہ اس امت کے دلوں کے تاریک حجرہ میں نور کا کوئی دریچہ نہ ھو، امید کے چھل چراغ اسی قلب کی بے رونق دھلیز کو روشن کرتے ھیں جو پھلے سے مشعل داروں کی گذر گاہ ھو یعنی ایک ایسے مرد کی گذر گاہ کہ جو ”قبس، زیت مُضی“ اور اپنے ذاتی وجود کے نور کوچھل چراغوں کی شمع جلا نے کے لئے ہدیہ لایا ھو۔

امید کی روح افزا گرمی، سایہ فگن بر فیلے جسموں کو پگھلادے گی تا کہ ان کے اقبال کا آفتاب عالم تاب جو بادلوں کی نقاب کی آڑ میں اپنا چھرہ چھپائے ھوئے ھے اس سے باھر آجائے۔

عمومی فضیلت اور عادلانہ حکومت کی تشکیل کی آرزو اور شرافت آمیز اور حق پرست معاشرہ کے وجود نے بہت سارے دانشوروں کو اس بات پر آمادہ کیا ھے کہ اس سنھر ے شھر اور رونق بخش تمدن کا نمونہ ذکر کریں اور انسانی معاشرہ کو اس کی نوید اور خوشخبری دیں یا اس تک پھونچے کے لئے اس کی تشویق کریں چنانچہ افلاطون نے ”اتو پیا“ کا ایک نقشہ فراھم کیا۔

ابونصر فارابی نے ”مدینہ فاضلہ کا“ بورڈ بنایاتو ماس کا مپانلاماکت نے ”شھر آفتاب“ یا ”آفتابی ملک“ کا نقشہ پیش کیا ھے۔ تاس مور نے”زمین کی جنت“کی نوید دی ھے۔ کارل مارکس نے ”طبقہ کے بغیر معاشرہ“ کو تاریخی منزل کی آخری وعدہ گاہ خیال کیا ھے۔

ھاں اکثر انسانوں کو ان کی کمال طلب فطرت اور ترقی پسند طبیعت نے انسانی سماج پر غیرعادلانہ حاکم نظام کی وجہ سے موجودہ ناگفتہ بہ حالات سے انھیں گریزاں بنادیا ھے۔ وہ اچھے شھر کا خیال رکھتے ھیں کہ جو آدمی کے عمیق فطری میلان کی تجلی اور خالص انسانی فضائل کی ترقی فراھم کرے جیسا کہ اشارہ ھوا ھے بعض مفکرین نے نظام کی اھمیت کے پیش نظر اس کی توصیف بھی کی ھے، لیکن قابل توجہ اور بنیادی و حیاتی مسئلہ یہ ھے کہ ان میں سے کسی نے بھی اس ناگفتہ بہ حالات سے چھٹکارا پانے اور مطلوبہ اور پسندیدہ حالت تک پھونچے کے لئے کوئی عملی اور ضمانت آمیز راہ حل پیش نھیں کیا۔

 ØªÙ…ام بنیادی پیشکش میں دغدغہ، عملی سیاست میں خوف ھر پھلو اور ھر جانب سے حیرانی Ùˆ پریشانی نیز انقلاب وتغیر تک رسائی Ú©Û’ لئے مدنی پیشکش اور موجودہ سماج کا ڈھانچہ اور ترقی یافتہ تہذیب وثقافت کا حصول ”ایک اجرائی ضمانت کا بحران Ú¾Û’Û” بحرانی ریشہ یھاں پر Ú¾Û’ کہ حکومت قائم کرنے کا لازمہ اور حق محور سماج Ú©ÛŒ تشکیل اور عدل پرور معاشرہ کا وجود، اس پر موقوف Ú¾Û’ کہ بساط ظلم الٹ دی جائے حق تلفی خوا ہ قانونی Ú¾Ùˆ یا غیرقانونی اس Ú©ÛŒ جڑیں اکھاڑ پھینکی جائیں اورتمام جابر Ùˆ ظالم حکومت Ú©ÛŒ بیخ Ú©Ù†ÛŒ Ú©ÛŒ جائے تمام استعمار، استثمار، استخدام (کہ اس مفھوم کا علامہ طباطبائی Ù†Û’ آخری لفظ سے ارادہ کیا Ú¾Û’) اور استکبار کا صفایا Ú¾Ùˆ[31]

یعنی اپنے کو تمام وجود سے ٹکرانااور ظالموں کے منافع، اقتدار پرستوں اور حق سے برسر پیکار ھونے والوں سے مقابلہ کرنا یعنی یہ مکمل طور پر مستکبرین عالم سے جنگ اور بڑی طاقتوں سے برسر پیکار ھونا ھے۔

ھم سب کو معلوم ھے کہ موجودہ اور کار فرما محاذ حق کے طبیعی تمام عوامل کے اندر ایک اجرائی اورضمانت کرنے والا کوئی ایسا عنصر موجود نھیں ھے جو باطل مح-اذ پر پوری طرح سے برتری اور فوقیت حاصل کرلے، بلکہ تصور بھی نھیں کیا جا سکتا کہ اسباب واسلحوں سے لیس باطل لشکر کو درھم برھم کیا جاسکے۔

پھر کس طاقت کے سھارے موجودہ قوتوں کا توازن برقرار کیا جاسکتاھے جو باطل کے محاذ و مفاد کو درھم برھم کرسکیں؟ نہ صرف اس شجرہ خبیشہ کی شاخوں کوقطع کیا جائے، بلکہ انسانی سماج اور معاشرہ سے اس کی پوری طرح بیخ کنی کر دی جائے ؟ اس صورت حال میں ھم کس طرح اپنے دل میں ایک گھری امید اور قوت بخش آرزو اور اپنے دل اور دماغ میں جھاد آفرین جذبہ پیدا کرسکتے ھیں؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next