عقیدہ مہدویت کے اجزا و عناصر سے متعلق بحث



سورہ قصص کی پانچویں اورسورہ انبیاء کی ۱۰۵/ویں آیت کے مفاد کا مقایسہ کرنے اور سورہ نورکی ۵۶/ویں آیت کے ذیل کو دیکھنے کے بعد بخوبی سمجھ میں آ جاتا ھے کہ حقیقی مومنین اور صلحاء ھمیشہ پوری تاریخ میں ھواپرستوں، مالدار مستکبرین کہ جن کے ھاتھ میں اقتصادی اور سیاسی حکومتی لگام رھی ھے کمزور کئے جا تے رھے ھیں۔ حق و باطل کی غیر عادلانہ اور لامتناھی جنگ اور اسباب وتعداد[25] کے اعتبار سے خدائی اقلیتی گروہ نیزکمر شکستہ حالت اھل حق کے لئے اگر کوئی باعث استقامت و پائداری چیز ھے تو وہ ”اللہ کا وعدہ اور اس کی نصرت کی امید ھے“ کہ ارشاد قدرت ھے:

<فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغَالِبُونَ>[26]

”بے شک اللہ کا گروہ غالب ھے“

موحد جنگجو اور ظلم کے خلاف لڑنے والے قوت بخش عناصر توانائی عطا کرنے والی”امید“ کو اپنے پروگرام سے حذف کردیں تو پھر اس مقدس جھاد کی بقا کا کوئی مقصد ھی نھیں رہ جائے گا۔ کیونکہ ایسی راہ میں ھاتھ پیر مارنا جس کا نتیجہ شکست اور ناکامی ھو غیر معقول ھے[27] ورنہ خداوند حکیم کیوں فرماتا:

<اِنَّہ لَا یَیْئَسُ مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکَافِرُونَ>[28]

چونکہ یاس وناامیدی سب سے عظیم کشتار گاہ (جھاں جانور ذبح کئے جاتے ھیں) ھے جھاں ابلیس نے انسان کی تمام فضیلتوں اور حیثیتوں کو ذبح کرنے کے لئے آدمی کی راہ میں فراھم کیا ھے۔ ”ناامیدی یعنی“ آدمی کی خلقت کے سربستہ رازوں کے بھانہ سے خدا حافظ کھنا جو انسان کے کمال تک پھونچنے کا ذریعہ ھے، ”ناامیدی“ یعنی وسیلہ معراج کو توڑنا، ”ناامیدی“ یعنی سلوک الی اللہ کی جوتیوں کو پیروں سے اتار دینا ھے، ”ناامیدی“ یعنی اپنے اصلی مقصد تک سفر کرنے والے ٹکٹ کو واپس کردینا ھے، ”ناامیدی“ یعنی ”شکست قبول کرنا ھے۔“

اس قابل غور جملہ کو ملاحظہ کیجئے: ”ایسے بہت کم لوگ ھیں جو اپنے آپ شکست سے دو چار ھوتے ھیں، اکثر مواقع پر شکست کو قبول کرنا ھی شکست و ناکامی کا باعث ھوتا ھے“ اگرچہ کھنے والے نے کلمات کے انتخاب میں فلسفی باریکیوں کا لحاظ نھیں کیا ھے لیکن مصنف کی نظر میں یہ ھے کہ اس نے ”شکست“ کو دو قسم میں تقسیم کیا ھے:

۱۔مقام ثبوت میں شکست (واقع اور حقیقت میں) ۲۔مقام اثبات میں شکست یعنی شکست قبول کرنا اور اس کا اعتراف کرنا۔

پھر اس وقت اس مطلب کاصحیح نتیجہ نکلتا ھے کہ شکست کی دوسری قسم ایک شخص یا پوری امت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ھے[29] اور نیست و نابود کا تیر اس کی طرف رھا کرتی ھے، نہ کہ شکست کی پھلی قسم، ھاں ”امید“ کامیابی دلاتی ھے اور ”ناامیدی“ شکست آور، بلکہ ”امید“ خود کامیابی ھے اور ”ناامیدی“ ہزیمت اور شکست۔

بہ نومیدی سحرگہ گفت امید



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next