عقیدہ مہدویت کے اجزا و عناصر سے متعلق بحث



جیسا کہ حدیث شریف میں ذکر ھوا ھے[20]

اللہ کی نعمتوں میں سب سے زیادہ اھم نعمت سلامتی اور حفاظت کی نعمت ھے۔ سلامتی کی انواع واقسام نعمتوں کے درمیان؛ جیسے: فوجی، قضائی، اقتصادی اعتبار سے امن و سلامتی اور بلا شک وشبہہ ذھنی سکون اور سلامتی عظیم مرتبہ کی حامل ھے، کیونکہ ذھنی سکون کے فقدان کی صورت میں شخص ایسی مفلوج کن مایوسی کا شکار ھوتا ھے جو اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ھے۔ لہٰذا ایک معاشرہ کو روحی تعادل اور ذھنی سکون عطاکرنا اور زندگی کو سرور و نشاط کے ساتھ باقی رکھنا اس سماج ومعاشرہ کی سب سے قیمتی دولت محسوب ھوتی ھے اور امت کی آرزوں کو ممکن بناتی ھے۔

اس بنیاد پر، ”منجی موعود“ کا تصور جغرافیائی اعتبار سے تمام عالم اسلام بلکہ اس سے بڑھکر تاریخ کے ستائے ھوئے دنیا کے مستضعفین نیز خدا کے متلاشی اور عدالت کے طالب مجاہدین کا گرانبھا معنوی سرمایہ ھے۔ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کا عقیدہ ذھنی قوت بڑھانے کا لامتناھی اور جوش مارتا چشمہ ھے کہ جس سے وابستہ رہ کر حق کے محاذ پر گامزن رھنے والوں کے لئے نئی بنیاد اور مضبوط ارادہ کا پیش خیمہ ھے، تاکہ یہ ثبات قدمی اور پائداری، دوام بخش ثابت ھو۔ جھاں پر حضرت کا یہ مقدس پھلو اور امت کاخود آگاھانہ طورپر حضرت کی طرف تفصیل سے متوجہ ھونا ایک مبارک پیغام ھے اس طرح سے کہ محاذ حق پر بنیادی کردار ادا کرے اور خود کو غیر سے ممتاز قرار دے۔ مناسب ھے کہ ایک تحلیلی مقدمہ کے ساتھ اسے بسط وتفصیل سے پیش کیا جائے:

کامیابی کی شاھراہ اور فتح وظفر کی امید

دوسری عالمی جنگ میں لنینگراد نامی شھر ھیٹلر کی فوج کے محاصرہ میں آگیا، اور یہ محاصرہ طولانی ھوا اور شدت کا قحط پڑا اور سردی اس درجہ بڑھی کہ روزانہ ہزاروں آدمی مرنے لگے محاصرہ چار سا ل تک جاری رھا اور لوگ اسی طرح مقاومت کرتے رھے، اس دوران لنینگراد کا ریڈیو لوگوں کے لئے مقاومت کرنے والے گروہ (Defence) کی طرف سے مسلسل پیغام بھیجتا رھا اور انھیں ثبات قدمی اور پائداری کی دعوت دیتا رھا، ایسا اس وقت ھو رھا تھا جب مقاومت کرنے والے گروہ سے دوتھائی سے زیادہ لوگ بھوکوں مرچکے تھے، لیکن ریڈیو ان کی موت کی اطلاع دیئے بغیر، اسی طرح ان کے اسماء اپنے اعلان نامہ کے آخر میں ذکر کرتا رھا۔ جب بجلی نہ ھونے کی بنا پر ریڈیو دوروز خاموش ھوگیا اور پروگرام نشر کرنا بند کردیا تو بہت سارے لوگ ریڈیو اسٹیشن کے پاس جمع ھوگئے اور آواز لگانے لگے ھمیں آذوقہ نھیں چاھیئے، صرف ریڈیو کے پروگرام کو نئے سرے سے فعال بنایا جائے،تاکہ پھر سے ھم گروہ مقاومت کے نشریات کو سن سکیں[21]

قرآنی رپورٹ کے مطابق پوری تاریخ میں حق کا محاذ ھمیشہ اقلیت میں رھا ھے اور باطل پرست حق پرستوں اور خدا طلب لوگوں سے زیادہ رھے ھیں؛خداوند عالم فرماتاھے:

<تِلْکَ الْقُرَیٰ نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَائِھَا وَ لَقَدْ جَائَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَمَا کَانُوا لِیُوْمِنُوا بِمَا کَذَّبُوا مِنْ قَبْلِ کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوبِ الْکَافِرِیْنَ؛وَمَاوَجَدْنَا لِاَکْثَرِ ھِمْ مِنْ عَھْدِ وَاِنْ وَجَدْنَا اَکْثَرُ ھُمْ لِفَاسِقِیْن>[22]

”یہ وہ شھر ھیں جن کی بعض خبریں ھم تمھارے لئے بیان کرتے ھیں۔در حقیقت ان کے پیغمبروں نے ان کے لئے واضح اور آشکار دلائل پیش کئے لیکن وہ لوگ گذشتہ تکذیب کے پیش نظر پھر بھی ایمان نھیں لائے، اس طرح سے خدا کافروں کے دلوں پر مھر لگاتا ھے اور ھم نے ان میں سے اکثر کو عہد و پیمان کا پابند نھیں پایا اور ان میں سے اکثر کو ھم نے فاسق ھی پایا“

اسی طرح فرماتا ھے:

 <وَمَا یَاْتِیْھِمْ مِنْ رَسُولٍ اِلَّا کَانُوا بِہ یَسْتَھْزِوُنَ>[23]

<وَمَا اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرِصْتَ بِمُوْمِنِیْنَ>[24]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next