عقیدہ مہدویت کے اجزا و عناصر سے متعلق بحث



استاد مطھری اس سلسلہ میں فرماتے ھیں:ایمان یعنی اعتقاد اور رجحان، ایمان یعنی ایک فکر کا جذب ھونا یا ایک فکر کو قبول کرنا۔ ایک فکر کا جذب ھونا دور کن کا حامل ھے: اس کا ایک رکن اس کا علمی جنبہ ھے جس کو انسان کی عقل وفکر قبول کرتی ھے اور دوسرا رکن، اس کا احساساتی جنبہ ھے کہ جس کی طرف انسان کا دل مائل ھوتا ھے[7]

یہ ایک دوسری جگہ لکھتے ھیں: بلند و بالا اور معنوی خیالات نیز انسان کے حیوانی پھلو سے مافوق نظریات جب فکری بنیادوں پر استوارھوتے ھیں تو خود بخود ایمان کا نام حاصل کرلیتے ھیں[8]

اس لحاظ سے، اس نتیجہ تک پھونچا جاسکتاھے کہ ایمان دو مجموعہ”ایک بلند حقیقت کی معرفت“ اور دوسرے ”اس حقیقت کو دل و جان سے قبول کرنے“ سے تشکیل پاتا ھے۔

اب جب ھمیں حقیقت ا یمان کے عناصر اور اس کے مقدمات معلوم ھوگئے، تو مطلب خوب واضح طور سے سمجھ میں آگیا ھے کہ منجی کا عقیدہ اور مہدی(علیہ السلام) پر ایمان رکھنا، صرف آنحضرت کی شناخت اور ان سے مربوط امور کی معرفت پر موقوف نھیں ھے، اس شخص کو بقیة اللہ اور حجت زمانہ کا معتقد کہتے ھیں جو معرفت حاصل کرنے کے بعددل سے اپنے مولا و مقتدیٰ سے مانوس ھو اور اس کے ساتھ سفر کرے کہ دل کے سو قافلہ جس کے ھمراہ ھوں ان سے قلبی رابطہ رکھے اور اپنے دل کو ان کی محبت و چاہت کا شیدائی بنائے[9]

جو وصیتیں ھم ذیل میں سرسری طور پر رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اور ائمہ معصومین ٪سے امام غائب کے چاھنے والوں کے فرائض اور ذمہ داریوں کے عنوان سے ذکر کررھے ھیں وہ در حقیقت عملی تاکید اور نفس شناسی کے دستورالعمل نیز غیر مستقیم طریقہ سے قلبی رابطہ بر قرار کرنے کے لئے، روحی انسیت اور قلبی لگاو پیدا کرنے کے لئے ھے:

۱۔ آنحضرت کو ہدیہ دنیا، تحفہ پیش کرنا اور ان کی مرضی اور مورد پسند امور میں خرچ کرنا[10]

۲۔آپ کی بیعت کی تجدید کرنا[11]

۳۔امام کے فراق میں رونا اور آنسو بھانا[12]

۴۔امام کی یاد تازہ کرنے کے لئے مجالس کا انعقاد[13]

۵۔گل نرجس کی نیابت میں مراسم حج کی انجام دھی اور یوسف زھرا کی سلامتی کے لئے صدقہ دینا[14]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next