عورت اور ترقی



آج صورتحال يہ ہے کہ مغرب ميں خانداني ادارہ اور سماجي اَقدار زوال کا شکار ہو گئي ہيں،مرد اور عورت کے فرائض اور دائرہ کار آپس ميں خلط ملط ہو گئے ہيں. بيسويں صدي کے آغاز تک تحريک آزادي نسواں کے زيادہ تر مطالبات مساوي تعليم کے مواقع اور عورتوں کو ووٹ کے حقوق دينے تک ہي محدود تھے

 

علامہ اقبال نے آج سے ستر برس قبل يورپ کے متعلق کہا تھا :

يہي ہے فرنگي معاشرے کا کمال مرد بے کار و زَن تہي آغوش

" مرد بے کار پھر رہے ہيں اور عورتوں کي گود خالي ہے کيونکہ وہ ماں بننے کيلئے آمادہ نہيں ہيں "

عورت اور ترقی

مغرب نے قوموں کي ترقي کے لئے جس سماجي فلسفہ کو آگے بڑھايا ہے ، اس کا ايک بنيادي نکتہ يہ ہے کہ ترقي کے عمل ميں عورتوں کي شرکت کے بغير خاطر خواہ نتائج کا حصول ممکن نہيں ہے. يہ فقرہ تو تقريباً ضرب المثل کي حيثيت اختيار کرچکا ہے کہ مرد اور عورت گاڑي کے دو پہيوں کي حيثيت رکھتے ہيں اور يہ کہ زندگي کے ہر شعبے ميں عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے مواقع ملنے چاہئيں. درحقيقت اس طرح کے نعرے تحريک آزادي نسواں کے علمبرداروں کي طرف سے شروع ميں انيسويں صدي کے آغاز ميں لگائے گئے تھے جو رفتہ رفتہ بےحد مقبوليت اختيار کر گئے. اس زمانے ميں عورتوں کا دائرہ کار گھر کي چار ديواري تک محدود تھا اور عورت کا اصلي مقام اس کا گھر ہي سمجھا جاتا تھا.

 

اس زمانے کي خانداني اقدار ميں کنبے کي معاشي کفالت کي اصل ذمہ داري مرد پر تھي اور عورت کا بنيادي فريضہ گھريلو امور کي انجام دہي، بچوں کي نگہداشت اور اپنے خاوندوں کے آرام و سکون کا خيال اور فارغ وقت ميں عمومي نوعيت کے کام کاج کرنے تک محدود تھا. تحريک آزادي نسواں کے علمبرداروں نے اس صورتحال کو مرد کي 'حاکميت'اور عورت کي بدترين 'غلامي' سے تعبير کيا اور عورتوں کے اس استحصال کے خاتمے کے لئے يہ حل پيش کيا کہ انہيں بھي گھر کے باہر کي زندگي کے عشرت انگيز دائروں ميں شريک ہونے کا موقع ملنا چاہئے. معاشرت، تعليم، سياست، صنعت و حرفت، ملازمت، غرض ہر شعبے ميں عورت کي شرکت کو مرد کي حاکميت اور غلامي سے چھٹکارا کے لئے ذريعہ سمجھا گيا. 1800ء کے لگ بھگ تحريک آزادي نسواں کا آغاز ہوا.

 



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next