عورت اور ترقی



 

اس سروے ميں ايک اور بات بھي قابل ذکر تھي کہ جس محلہ کي عورتيں کام کو سدھار جاتي ہيں تو پيچھے ان کے مرد گھر پر بيٹھے مکھياں مارتے رہتے ہيں اور اس محلہ کے بچوں ميں جرائم کا تناسب بڑھ گيا ہے. کيونکہ جس طرح مائيں بچوں کي نقل و حرکت پر نگاہ رکھتي ہيں، مرد وہ توجہ نہيں دے پاتے. مختصراً يہ کہ اگر عورتوں کي ملازمت کے نتيجے ميں مردوں ميں بے روزگاري پھيلتي ہے، تو يہ کسي بھي ملک کي مجموعي ترقي پر منفي اثرات مرتب کرے گي. يہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ ايک ملک کي آبادي سو فيصد تعليم يافتہ تو ہوسکتي ہے ليکن سو فيصد تعليم يافتہ لوگوں کو روزگار مہيا کرنا ممکن نہيں ہے. اگر تمام تعليم يافتہ خواتين و حضرات اپنا مقصد تعليم حصول ملازمت بنا ليں، تو ان کي اچھي خاصي تعداد کو بے روزگار رہنا پڑے گا. اس کے مقابلے ميں اگر خواتين تعليم کو حاصل کريں، مگر اپنے گھر کے نظم و نسق اور بچوں کي پيدائش و نگہداشت سے روگرداني نہ کريں، گھر سے باہر کے معاملات مردوں کے لئے چھوڑ ديں، تو اس صورت ميں اس قوم کا خانداني شيرازہ بھي قائم رہے گا اور پڑھے لکھے افراد ميں ملازمت کا توازن بھي متاثر نہيں ہوگا. عورتوں کي ملازمتوں ميں برابري پر زور دينے کي بجائے اگر مردوں کي تنخواہوں ميں خاطر خواہ اضافہ کر ديا جائے تو يہ معاملہ پہلے سے کہيں بہتر ہوگا.

 

پاکستان اور ترقي

 

پاکستان ميں مغرب کے اتباع اور مساوات مرد و زن کي غلط تعبير کے نتيجے ميں قومي دولت کا کثير سرمايہ غير پيداواري مدات ميں خرچ ہو رہا ہے. چند سال پہلے لاہور ہائيکورٹ نے ميڈيکل کالجوں ميں لڑکيوں کے لئے مخصوص کوٹہ کو مساوات کے اصول کے منافي قرار ديتے ہوئے اسے ختم کرنے کا حکم صادر کيا. جس کا نتيجہ يہ سامنے آيا ہے کہ بعض کالجوں ميں طلبہ کي نسبت طالبات کي تعداد زيادہ ہو گئي ہے مثلاً علامہ اقبال ميڈيکل کالج ميں. باوجوديکہ طالبات کے لئے فاطمہ جناح ميڈيکل کالج کي سہولت الگ سے موجود ہے، ہائيکورٹ کو طالبات کے لئے الگ کالج کي سہولت ميں تو 'عدم مساوات' کي بات دکھائي نہ دي البتہ ديگر مخلوط کالجوں ميں ان کي عدم مساوات کا خاص خيال رکھا گيا. پاکستان کے معروضي حالات ميں طالبات کي نسبت ميڈيکل کے طلبہ کي زيادہ ضرورت ہے. ميڈيکل کي طالبات کي اکثريت فارغ التحصيل ہونے کے بعد ملازمت نہيں کرتي. اگر کوئي خاتون ڈاکٹر ملازمت اختيار بھي کر لے تو لاہور، ملتان اور راولپنڈي جيسے بڑے شہروں سے باہر تعيناتي کے لئے بھي تيار نہيں ہوتيں. پنجاب ميں شايد ہي کوئي بنيادي ہيلتھ مرکز ہو جہاں کوئي ليڈي ڈاکٹر کام کر رہي ہو. لاہور ميں ميو ہسپتال، جناح ہسپتال اور سروسز ہسپتال ميں ليڈي ڈاکٹرز کي بھرمار ہے. جہاں ايک کي ضرورت ہے وہاں کم از کم چار کام کر رہي ہيں. گويا چار کي تنخواہ لے رہي ہيں اور کام ايک کے برابر کر رہي ہيں. ان کي اکثريت چونکہ غير پيداواري ہے، اسي لئے وہ قومي خزانہ پر بوجھ ہيں. ہماري اعليٰ عدالتوں کو ميڈيکل کالج ميں لڑکيوں کے لئے 'اوپن ميرٹ' کا تصور قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمتوں ميں ان کي تعيناتي کے متعلق مساوات کو بھي يقيني بنايا چاہئے.بڑے شہروں سے باہر ملازمت نہ کرنے کے لئے وجہ يہ بيان کي جاتي ہے کہ اکيلي عورت ناسازگار ماحول ميں بغير کسي محرم مرد کے کس طرح کام کرے گي؟ يہ گويا بالواسطہ اعتراف ہے اس بات کا کہ عورتيں وہ سب کام نہيں کرسکتيں جو مرد سرانجام دے سکتے ہيں. مگر کھلے لفظوں ميں کوئي بھي خاتون يہ اعتراف کرنے کے لئے تيار نہيں ہے کيونکہ اسے وہ اپني شکست سمجھتي ہيں.

 

راقم الحروف نے متعدد محکمہ جات ميں خواتين کو کام کرتے ديکھا ہے، ان ميں سے ايک بھي ايسي نہيں ہے جو پيداواري صلاحيت کے اعتبار سے مرد ملازمين کے برابر کارکردگي کا مظاہرہ کرتي ہو. ان ميں سے شايد ہي کوئي ايسي ہو جس کي خانگي زندگي بري طرح متاثر نہ ہوئي ہو. ايک ايسے ملک ميں جہاں کے نوجوان بے روزگاري کے بحران سے دو چار ہوں، وہاں ايسے شعبہ جات ميں عورتوں کي تعيناتي جہاں مرد بھي کام کرسکتے ہوں، قوم کے معاشي مسائل ميں اضافہ کا باعث بنتي ہے. ايک لڑکے کا بے روز گار رہنا لڑکي کے بے روزگار رہنے سے کہيں زيادہ خطرناک ہے. کيونکہ لڑکے پر مستقبل ميں ايک پورے کنبہ کي کفالت کا بوجھ پڑنا ہوتا ہے. جبکہ خاندان کي معاشي کفالت عورت کي سرے سے ذمہ داري ہي نہيں ہے.

 

عورتوں کي ملازمت کے متعلق ايک دليل يہ بھي دي جاتي ہے کہ آج کل مہنگائي کے دور ميں مياں بيوي دونوں کابرسر روزگار ہونا خاندان کے مجموعي وسائل ميں اضافہ کا باعث بنتا ہے. بعض استثنائي صورتوں ميں تو شايد يہ بات درست ہو ليکن مجموعي اعتبار سے يہ مفروضہ مغالطہ آميز ہے. ايک ملازم خاتون اپني تنخواہ سے کہيں زيادہ يا کم از کم اس کے قريب قريب اپنے لباس کي تياري، ميک اَپ، ٹرانسپورٹ، اپنے بچوں کي ديکھ بھال کے لئے آيا کے بندوبست، گھر ميں نوکراني کي تنخواہ وغيرہ پر خرچ کرنے پر مجبور ہوجاتي ہے. ايک سترہ گريڈ کے افسر کي ماہانہ تنخواہ چھہزار سے زيادہ نہيں ہوتي. جبکہ مذکورہ اخراجات اس سے کہيں زيادہ ہوجاتے ہيں. اس کے علاوہ گھر ميں عدم سکون، بے برکتي اور بدنظمي کا سامنا الگ کرنا پڑتا ہے. ايک ملازم پيشہ عورت خود بھي پريشان ہوتي ہے اور اپنے خاوند اور بچوں کو بھي پريشان کرتي ہے. ايسي صورت ميں وہ قومي ترقي ميں کوئي مثبت کردار کيسے اَدا کرسکتي ہے. يہاں يہ ذکر کرنا بھي مناسب ہوگا کہ ملازم عورتيں اپنے خاوندوں کا بہت سارا وقت برباد کر ديتي ہيں. وہ دعويٰ تو 'برابري' کا کريں گي، ليکن انہيں دفتر لے جانے اور لے آنے کي ذمہ داري ان کے خاوند ہي کو نبھاني پڑے گي. گويا ان کي ملازمت کي وجہ سے ان کے خاوند بھي اچھي کارکردگي کا مظاہرہ نہيں کر پاتے.



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next