عورت اور ترقی



 

مذکورہ کتاب کي مصنفہ ايک امريکي خاتون سلويا اين ہيولٹ (Sylvia Ann Hewlett) ہيں جو برطانيہ کي کيمبرج يونيورسٹي اور امريکہ کي ہاروڈ يونيورسٹي سے اعزاز کے ساتھ تعليم مکمل کرچکي ہيں، وہ اکنامکس ميں پي ايچ ڈي ہيں اور امريکہ کي 'اکنامک پاليسي کونسل' کي ڈائريکٹر ہيں. نيو يارک ٹائمز ميں باقاعدگي سے لکھتي ہيں اور نصف درجن کتابوں کي مصنفہ ہيں. ميرے خيال ميں وہ پاکستان کي انساني حقوق کي علمبردار کسي بھي خاتون سے زيادہ تعليم يافتہ ہيں. عورتوں کي ملازمت کے حوالے سے پيش آمدہ مسائل ان کي دلچسپي کا خاص محور رہے ہيں وہ عورتوں کے حقوق کي علمبردار تو ہيں مگر 'تحريک آزادي نسواں' کے نظريات سے اختلاف رکھتي ہيں کيونکہ اس تحريک نے عورتوں کے مسائل حل کرنے کي بجائے ان ميں اضافہ کيا ہے. ہيولٹ نے اپني اس کتاب کے ايک باب کا عنوان رکھا ہے :

 

"Ultra.domesticity: The return to Hearth and Home" يعني "بے تحاشا خانہ داري؛ گھر کي طرف مراجعت"

 

يہ تمام کا تمام باب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے. يہاں اس سے چند ايک اقتباسات پيش کئے جاتے ہيں. ہيولٹ صا حبہ لکھتي ہيں:

 

"In the United States the picture was dramatically different. In the 1950's Women with college degrees in the child.bearing group had a lower rate of employment than any other group of Women, for the plain fact was Women with college degrees were ofien married to pros. perous men. And in America in the fifties, if the family could afford it, the wife stayed at home."

 

"رياست ہائے متحدہ کا منظر ڈرامائي طور پر مختلف تھا. 1950ء کي دہائي ميں کالجوں سے فارغ التحصيل وہ نوجوان خواتين جو بچے پيدا کرنے کي عمر رکھتي تھيں، ان ميں ملازمت کي شرح عورتوں کے کسي بھي دوسرے گروہ سے کم تھي. اس کي سادہ سي و جہ يہ تھي کہ کالجوں سے فارغ التحصيل عورتوں کي شادياں اکثر خوشحال مردوں سے ہوجاتي تھيں. پچاس کے عشرے ميں اگر خاندان اس بات کا متحمل ہوتا تو بيوي گھر ہي ميں رہتي تھي." (صفحہ:153)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next