عورت اور ترقی



 

مندرجہ بالا انگريزي عبارت ميں"Stayed at home" کے الفاظ کو قرآن مجيد کے مقدس الفاظ (وَقَرْنَ فيْ بيوْتکنَّ) کي روشني ميں پڑھئے تو اسلام کي آفاقي صداقتوں کے تصور سے دل سرشار ہو جاتا ہے. ہيولٹ 1945ء اور اس کے بعد امريکي عورتوں کے حالات لکھتے ہوئے بيان کرتي ہيں:

 

"1945ء ميں امريکي عورتيں جتني بااختيار تھيں، اس سے پہلے اتني بااختيار کبھي نہ تھيں مگر جنگ عظيم دوم کے بعد آنے والے برسوں ميں ايک عجيب بات سامنے آئي. امريکہ جو کہ آزاد اور طاقتور عورتوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، اس پر خانہ داري کے جذبات عجيب طور پر حملہ آور ہوگئے. پھر يوں ہواکہ لاکھوں عورتوں نے ايسا طرز زندگي اپنا ليا جو مکمل طور پر خاندان اور گھر پر مرکوز تھا. ملک کي تاريخ ميں پہلي مرتبہ يہ ہوا کہ تعليم يافتہ عورتوں سے يہ توقع کي جاتي اور ان کي حوصلہ افزائي کي جاتي تھي کہ وہ اپني زندگي کے بہترين (Prime) سال اور اپني بہترين توانائياں گھريلو کاموں اور ممتا کا کردار نبھانے پر صرف کريں.

 

ما بعد جنگ کے يہ سال عجيب رجحان کے حامل تھے. 1950ء کي دہائي ايک عجب دور تھا، اس ميں يوں ہوا کہ عورتوں نے پہلے سے نسبتاً چھوٹي عمر ميں شادياں کرنا اور بچے پيدا کرنا شروع کرديے، وہ اپني تعليم اور ملازمت کو بھي درميان ميں چھوڑ کر ايسا کرنے لگيں. 1920ء اور 1930ء کي دہائيوں ميں امريکي عورتوں کي شادي کرنے کي اوسط عمر 23 تھي، جو 1950ء ميں کم ہوکر 20 رہ گئي. کسي بھي دوسرے ترقي يافتہ ملک ميں شادي کرنے کي صنفي طور پر اوسط عمر اس قدر کم نہ تھي. شرح پيدائش ميں بھي تيزي سے اضافہ ہوا. 1950ء کے آخري سالوں ميں امريکہ ميں شرح پيدائش ميں اضافہ يورپ کے مقابلے ميں دگنا جبکہ افريقہ اور انڈيا کے برابرتھا. يہ دور جو 1960ء تک رہا، اس ميں تيسرے بچے کي پيدائش کي شرح دوگني ہو گئي، چوتھے بچے کي شرح ميں تين گنا اضافہ ہوگيا. خانداني زندگي سے محبت کي اس دہائي ميں طلاق کي شرح کسي حد تک کم ہوگئي." (صفحہ 152،153)

 

ہيولٹ کے درج ذيل الفاظ پڑھ کر تو شايد قارئين کو اعتبار نہ آئے. آخر يہ کيونکر ہوا کہ امريکي لڑکيوں نے تعليمي اعزازات پرمنگني کي انگوٹھيوں کو ترجيح دينا شروع کردي. ان کے اپنے الفاظ ميں ملاحظہ کيجئے :

 

"مختصراً يہ کہ ملازم پيشہ امريکي عورتيں (پروفيسر،وکلا، ڈاکٹر و غيرہ) کا تناسب 1950ء ميں جنگ سے قبل کے سالوں کي نسبت انتہائي کم تھا اور امريکي عورتوں کا ملازمت کو بطور پيشہ اختيار کرنے کا رجحان اپني يورپي بہنوں کي نسبت بہت ہي کم تھا. حتيٰ کہ امريکہ کے اعليٰ درجہ کے کالجوں ميں سب نوجوان طالبات کي آرزو يہ تھي کہ وہ گريجويشن کرتے ہي اعليٰ تعليمي اعزازات کي بجائے اپني انگليوں ميں منگني کي ہيرے کي انگوٹھي پہن سکيں. امريکي عورتيں عام طور پر بچوں کي پيدائش سے پہلے جاب کرتي تھيں ياپھر اس وقت جب ان کے بچے ہائي سکول ميں داخل ہوجاتے تھے، مگر وہ ملازمتوں کو شاذ و نادر ہي مستقل پيشہ بناتي تھيں. امريکہ ميں پچاس کي دہائي ميں عورتيں اپني بہترين توانائياں اور خانہ داري اور بچوں کي ديکھ بھال ميں خرچ کرتي تھيں." (صفحہ:153)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next