عورت اور ترقی



 

وہ مزيد لکھتي ہيں: "مجموعي طور پر عام عورت کو ريليف دينے کے حوالے سے خواتين پارليمنٹرين کي کارکردگي صفر رہي ہے."

 

ان خواتين صحافيوں کي نگاہ ميں خواتين پارليمنٹرين کي طرف سے کسي نماياں کارکردگي کا مظاہرہ نہ ہونے کي ايک وجہ يہ بھي ہے کہ اسمبليوں کے اندر خاتون اراکين کو مرد اراکين اسمبلي کي طرف سے شديد مخالفت اور تنقيد کا سامنا ہے. وہ خاتون اراکين کي حيثيت مقام اور مرتبے کو تسليم کرنے پر تيار نہيں اور کسي خاتون کي طرف سے کوئي تحريک پيش کرنے يا قانون کا بل پيش ہونے پر انہيں طنز و مزاح کا نشانہ بناتے ہيں. (ايضاً)

 

ہمارے خيال ميں خواتين کي اسمبليوں ميں 'صنفي کارکردگي' نہ دکھانے کا سبب مردوں کي طرف سے ان کي مخالفت يا تنقيد نہيں ہے. اگر پاکستان ميں 17 فيصد کي بجائے 77 فيصد خواتين کو اسمبليوں ميں بٹھا ديا جائے تب بھي ان کي يہ نمائندگي پاکستاني خواتين کي اس ترقي کے ضامن نہيں بن سکتي جس کا يہ خواب ديکھتي ہيں. بنيادي طور پر يہ تصور ہي غلط ہے کہ سياست ميں خواتين کي عملي شرکت سے ہي عورتيں ترقي کرسکتي ہيں. يہ مغرب کا تصور ہے جو انہوں نے پسماندہ ممالک کيلئے پيش کيا ہے، ورنہ ان کے ہاں عورتوں کي پارليمنٹ ميں جب نمائندگي نہ ہونے کے برابر تھي، تب بھي وہاں کي عورت ترقي يافتہ تھي. امريکہ، برطانيہ ، فرانس اور جرمني سميت ايک بھي ترقي يافتہ ملک ايسا نہيں جہاں عورتوں کو 33 فيصد نمائندگي حاصل ہو.

 

پاکستان کي اسمبليوں ميں لبرل اور مغرب زدہ خواتين کے ساتھ متحدہ مجلس عمل کي خواتين اراکين اسمبلي بھي موجود ہيں. اسلامي مزاج رکھنے والي ان خواتين کي موجودگي کا اور کوئي عملي فائدہ ہو يا نہ ہو، يہ ضرور ہوا ہے کہ وہ مغرب زدہ خواتين کي طرف سے حدودآرڈيننس اور ديگر اسلامي قوانين کے خلاف کي جانے والي کوششوں کي بھرپور مزاحمت کررہي ہيں. انہوں نے ان مٹھي بھر افرنگ زدہ عورتوں کے اس دعويٰ کو بھي باطل ثابت کيا ہے کہ وہ تمام پاکستاني خواتين کي نمائندگي کرتي ہيں.

 

پاکستاني عورتوں کي ملکي ترقي ميں شانہ بشانہ کردار کي بات ہو يا عورتوں کے حقوق کے تعين کامعاملہ ہو، پاکستاني مسلمانوں کو فيصلہ کرنا ہے کہ وہ ان جديد چيلنجوں کا حل مغربي معاشرے کي پيروي ميں سمجھتي ہے يا ان مسائل کے حل کے لئے انہيں اسلام سے رہنمائي طلب کرني چاہئے جو کہ آفاقي دين ہے اور جس کي تعليمات ہر زمانے کے لئے ہيں. اسلامي فريم ورک ميں رہتے ہوئے مادّي ترقي کا حصول ہي ہمارا نصب العين ہونا چاہيے.

 

اسلامي اقدار اور ہمارے خانداني اداروں اور روايات کي قيمت پراگر پاکستاني عورت ترقي کي منازل طے کرتي ہے تو يہ سراسر خسارہ کي بات ہے. اسلام نے عورت اور مرد کے فرائض مختلف قرار ديئے ہيں. عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہي ہے، البتہ بعض استثنائي صورتوں ميں وہ بعض شرائط کي تکميل کے ساتھ گھريلو زندگي کے دائرے کے باہر بھي فرائض انجام دے سکتي ہے. عورتوں کے حقوق کے نام پر کام کرنے والي تنظيميں جو رول ماڈل (نمونہ) پيش کر رہي ہيں، وہ سراسر مغرب کي بھونڈي نقالي پر مبني ہے جس کا نتيجہ معاشرتي اور خانداني نظام کي تباہي کے علاوہ اور کچھ نہ ہوگا.اس بات سے انکار ممکن نہيں ہے کہ پاکستاني معاشرے ميں عورتوں کے حقوق کا بعض صورتوں ميں خيال نہيں رکھا جاتا، مگر ان حقوق کي بازيابي کا وہ تصور اور حل بے حد خطرناک ہے جو اين جي اوز پيش کررہي ہيں. اسلام نے حيا اور عفت کو عورت کا زيور قرار ديا ہے، اس سے محروم ہوکر کوئي عورت اسلام کي نگاہ ميں 'ترقي يافتہ' نہيں ہوسکتي. ہميں 'ترقي' کے وہ معيارات پيش نظر رکھنے ہوں گے جو اسلام کے اخلاقي نصب العين پر پورے اترتے ہوں۔.

 

امريکہ اور يورپ کي تاريخ گواہ ہے کہ مادّي ترقي کے حصول کے لئے عورتوں کا مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ شريک ہونا نہ صرف ناپسنديدہ بلکہ غير ضروري بھي ہے. ملکي ترقي ميں عورت کا شاندار کردار يہ ہے کہ وہ خانداني زندگي کے نظام کو اس انداز ميں سنبھال لے کہ اجتماعي طور پر معاشرہ استحکام حاصل کرے. خاندان کي اندروني زندگي کو اجاڑ کر دفتروں اور فيکٹريوں کے ماحول کو رونق بخشنے سے ترقي کا توازن قائم نہيں رکھا جا سکتا. مغربي معاشرہ آج اسي عدم توازن کا شکار ہے. عورتيں تعليم کي روشني سے بھي اپني روح کو منور کريں، انہيں صحت کي سہوليات بھي ہر ممکن حد تک پہنچائي جائيں. ان سے ہونے والي ناانصافي کے خاتمہ کي جدوجہد بھي ضرور کي جائے، مگر ان سب باتوں کے ساتھ ان کي پہلي ترجيح خانداني زندگي کو استحکام بخشنا ہو. اگر وہ تعليم حاصل کريں، اس کامقصد کسي فيکٹري کے چيف ايگزيکٹو کي پرائيويٹ سيکرٹري بن کر عملاً اس کي تنخواہ دار داشتہ کا کردار ادا کرنا نہ ہو، نہ ہي وہ تعليم کو محض ملازمت کے حصول کا ذريعہ سمجھيں. تعليم ايک مرد کے لئے معاش کا ذريعہ ہوسکتي ہے، مگر عورت کو اس لئے تعليم يافتہ ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنے بچوں کي مناسب تعليم و تربيت کا خيال رکھ سکے، ان ميں علم کي روشني منتقل کرسکے اور اپنے گھر کي 'چراغ خانہ' بن کر اس کي ديواروں کو علم کي روشني سے منور کرسکے.

 

جب ہم کہتے ہيں کہ عورت کو گھريلو زندگي کو اپني پہلي ترجيح سمجھنا چاہئے تو اس کا مطلب يہ ہرگز نہيں ہے کہ وہ دنيا سے الگ تھلگ ہوکر زندگي بسر کرے . آج کا معاشرہ بہت آگے بڑھ چکا ہے. بڑے متمدن شہروں ميں پرورش پانے والي عورتوں سے يہ توقع کرنا کہ وہ کوہستاني قبائل کي عورت کي طرح زندگي بسر کريں، ايک ناقابل عمل خواہش ہوگي. شہري زندگي ميں ايسے مواقع بھي کم نہيں ہوتے جہاں عورتيں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے پر مجبور نہيں ہوتيں. گھريلو زندگي سے باہر اگر چہ عورتوں کے ہي مخصوص تعليمي، تبليغي، رفاہي اور سماجي حلقوں ميں عورت بھرپور انداز ميں شريک ہوسکتي ہے ليکن ان حلقوں ميں شرکت کو اسے پيشہ ورانہ مشغوليت کي صورت ہرگز نہيں ديني چاہئے تاکہ خانداني زندگي نظر انداز نہ ہو.

 

'عورت اور ترقي' کے حوالہ سے ہمارے دانشوروں کو بہت بڑا چيلنج درپيش ہے کہ وہ ملکي ترقي ميں جديد پاکستاني عورت کے کردار کے حوالہ سے ايسا فريم ورک تشکيل ديں جس ميں اسلامي تعليمات کي روشني ميں اعليٰ انساني قدروں کا رنگ بھرا جاسکے اور جو مرد اور عورت کے مخصوص دائرہ کار کے اس تصور کي روشني ميں پيش کيا جاسکے جس ميں معاشرے کي مادّي واخلاقي دونوں طرح کي ترقي کے مقاصد کا حصول ممکن ہو.



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12