عورت اور ترقی



 

پاکستاني عورت اور ترقي کا نصب العين

 

'حکومت اور سياسي عمل ميں مساويانہ بنيادوں پر شرکت' تحريک حقوق نسواں کا شروع سے مطالبہ رہا ہے. خواتين کے حقوق کي علمبردار مغرب زدہ تنظيموں کا خيال ہے کہ اگر قانون ساز اداروں ميں خواتين کو کم از کم 33 فيصد نمائندگي مل جائے تووہ نہ صرف معاشرے ميں سے صنفي امتياز کا خاتمہ کرسکتي ہيں بلکہ خواتين کے حقوق کے منافي بنائے جانے والے قوانين کے خاتمے اور ايسے نئے قوانين کے اجرا کا راستہ بھي روک سکتي ہيں.

 

پاکستان ميں 2002ء کے انتخابات ميں پاکستاني خواتين کو قانون ساز اداروں ميں ابتدائي طور پر 17 فيصد نمائندگي سے نوازا گيا. اس وقت سينٹ، قومي اور صوبائي اسمبليوں ميں 233 عورتيں موجود ہيں. 74 قومي اسمبلي ميں، 78 سينٹ ميں؛ پنجاب اسمبلي ميں 73، سندھ اسمبلي ميں 33، سرحد اسمبلي ميں 23 جبکہ بلوچستان اسمبلي ميں خواتين کي تعداد 12 ہے. سوال پيدا ہوتا ہے کہ خواتين کو اسمبليوں ميں اس قدر زيادہ نمائندگي دينے کے باوجود عام پاکستاني عورت کي حالت ميں کوئي نماياں تبديلي واقع ہوئي ہے يا نہيں.

 

"اتني بڑي تعداد ميں خواتين کے اسمبليوں ميں پہنچنے کے بعد توقع تھي کہ ملک کي نصف آبادي کي نمائندہ عام عورت کے حقوق کے تحفظ اور تشدد ناانصافي سے نجات دلانے کے لئے ترجيحي بنيادوں پر يہ کام شروع کريں گي اور اسمبليوں کے اندر پارٹي سياست سے بالاتر ہوکر خواتين کے ايشو ز پر متحد ہوکر آواز بلند کريں گي ليکن خاتون اراکين اسمبلي کي 15ماہ کي کارکردگي بيان بازي سے آگے نہيں بڑي اور عملي سطح پر کسي جماعت کي خواتين نے کوئي کارکردگي نہيں دکھائي.

 

انتخابات سے قبل خواتين کي مختلف حقوق کي تنظيموں کي طرف سے منعقد کئے گئے پروگرام ميں ہر جگہ تمام سياسي جماعتوں کي خواتين نے اس عزم کا اظہار کيا تھا کہ وہ خواتين کے ايشوز پر دباو کو خاطر ميں نہيں لائيں گي. تاہم اسمبليوں ميں جانے کے بعد وہ اپنے اس عزم پر قائم نہيں رہ سکيں. عام پاکستاني عورت جو ظلم و تشدد، استحصال وغربت، ناخواندگي، ناانصافي، فرسودہ روايات و اقدار اور امتيازي رويوں کا شکار ہے، ہر گزرے دن کے ساتھ اس کے دکھوں اور مصائب اور مشکلات جبکہ عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کي تقدير بدلنے کا نعرہ لگا کر اسمبليوں ميں نمائندگي حاصل کرنے والي خواتين کي تنخواہوں اور مراعات ميں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے." (نوائے وقت، 8مارچ 2004ء)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next