عورت اور ترقی



 

ادھر سکنڈے نيويا کے ممالک جہاں سياست اور ملازمت ميں عورتوں کا تناسب پوري دنيا کے مقابلے ميں زيادہ ہے، وہاں خانداني اَقدار کي تباہي نے انہيں پريشان کر رکھا ہے. وہاں عورتيں گھر کو'جہنم' سمجھتي ہيں، ماں بننے سے گريز کرتيں اور بچوں کي نگہداشت پر توجہ نہيں ديتي ہيں.انہيں گھر سے باہر کي زندگي کا ايسا چسکا پڑا ہوا ہے کہ وہ گھريلو زندگي کو اَپنانے کے لئے تيار نہيں ہيں. بے نکاحي ماؤ ں اور حرامي بچوں کا سب سے زيادہ تناسب سکنڈے نيويا ميں ہے. لندن سے شائع ہونے والے شہرئہ آفاق ہفت روزہ 'اکانومسٹ' نے 23 جنوري 1999ء کي اشاعت ميں A Survey of Nordic Countries کے عنوان سے سکنڈے نيويا کے پانچ ممالک ناروے، سويڈن، ڈنمارک، فن لينڈ اور آئس لينڈ کے متعلق ايک تفصيلي جائزہ شائع کيا ہے. يہ ممالک جو Feminism تحريک کے بہت زيادہ زير اَثر ہيں اور جہاں عورتوں اور مردوں کي مساوات کو بے حد مضحکہ خيز طريقہ سے قائم کرنے کي صورتيں نکالي جاتي ہيں، ان کے متعلق بعض حقائق بے حد تعجب انگيز اور عبرت ناک ہيں.مثلاً اکانومسٹ کے مذکورہ سروے ميں ناروے کے متعلق بتايا گيا ہے کہ وہاں کي حکومت جوان لڑکيوں کو 'ماں' کي ترغيب دينے اور بچوں کي ديکھ بھال کرنے کے لئے مالي فوائد Incentives بہم پہنچانے کے لئے قانون پارليمنٹ ميں پيش کرچکي ہے. اس قانون کا بنيادي مقصد ان عورتوں کو گھر ميں بيٹھنے کي ترغيب اور حوصلہ افزائي بتايا گيا ہے. اس قانون کي مخالفت محض انتہا پسندوں کي ايک اقليت کر رہي ہے جن کا زيادہ تر تعلق ليبر پارٹي سے ہے. وہ اسے صنفي مساوات کے اصولوں کے منافي قرار ديتے ہيں. ناروے کے بارے ميں ايک اور بات بھي تعجب سے کم نہيں کہ اس ملک کے وزيراعظمBendevic کا تعلق کرسچين ڈيموکريٹک پارٹي سے ہے، جو ماضي ميں پادري رہ چکے ہيں. پاکستان کے آزادئنسواں کے ان جنوني علمبرداروں کو ناروے کي مثال پر غور کرنا چاہئے جو عورتوں کو گھر ميں بٹھانے کي ہر بات کو رجعت پسند ملا کي ناروا ہدايت سمجھ کر مسترد کر ديتے ہيں.

 

عالمي معيشت

 

زندگي کے تمام شعبوں ميں عورتوں کي غير ضروري شموليت نے جہاں سماجي اور اخلاقي برائيوں کو جنم ديا ہے، وہاں عالمي معيشت پر بھي منفي اثرات مرتب کئے ہيں. عالمي معيشت کو دو واضح خانوں ميں تقسيم کيا جاتا ہے. يعني مينوفيکچرنگ اور سروسز(اشيا سازي اور خدمات)”¤ گذشتہ پندرہ بيس برسوں ميں عالمي معيشت ميں سروس سيکٹر کے تناسب ميں اضافہ ہوا ہے. امريکہ کي 70 فيصد معيشت سروس سيکٹر پرمشتمل ہے. سروس سيکٹر کے پھلنے پھولنے کي ايک اہم وجہ ليبر فو رس ميں عورتوں کے تناسب ميں اضافہ بھي ہے. ہوٹل، بنک، جنرل سٹور، کمپيوٹر، اور ديگر خدمات بہم پہنچانے وا لے اداروں ميں عورتوں کي ملازمتوں کا تناسب بہت زيادہ ہے. امريکہ اور يورپ کے ممالک ميں ہر سال جو نئي ملازمتيں نکل رہي ہيں، ان ميں عورتوں کي کھيپ مردوں سے زيادہ ہے. سروسز سيکٹر ميں اضافے سے خام قومي پيداوار ميں تو بظاہر اضافہ ہوا ہے ليکن بالآخر اس کے نتائج حقيقي ترقي کے لئے ضرر رَساں ثابت ہوں گے کيونکہ فقط خدمات ، اشيا سازي کے بغير قومي ترقي ميں اضافہ نہيں کرسکتيں!!

 

آزادي نسواں اور ويلفيئرسٹيٹ

 

تحريک آزادي نسواں اور مساوي حقوق کے فتنہ نے امريکہ، يورپ اور بالخصوص سکنڈے نيويا کے ممالک کي فلاحي رياست کو بري طرح متاثر کيا ہے. 1950ء کے عشرے ميں ان ممالک ميں جس طرح رياست کے وسيع فلا حي منصوبے سامنے آئے تھے، ان ميں بتدريج اضافہ ہوتا گيا. 1990ء کے بعد سے يہ صورت ہوگئي ہے کہ برطانيہ، ناروے، سويڈن وغيرہ ويلفيئر پر اٹھنے والے اخراجات ميں مسلسل کمي کر رہے ہيں کيونکہ ان اخراجات کي وجہ سے ان کے بجٹ خسارے ميں جارہے ہيں. يہ واضح کر دينا ضروري ہے کہ ان ممالک کے فلاحي اخراجات کا بيشتر حصہ عورتوں پر خرچ ہوتا ہے. سکنڈے نيويا کے ممالک ميں فلاحي اخراجات کي سب سے بڑي مد بچوں کے Day Careمراکز کا قيام، اور بے نکاحي ماؤ ں کي مالي امداد کے متعلق ہے. ان ترقي يافتہ ممالک ميں علاج و صحت عامہ کي بہتر سہوليات کي وجہ سے شہريوں کي اَوسط عمر ميں اضافہ ہوا ہے جس کي وجہ سے پنشنرزکي تعداد ميں ہوش ربا اضافہ ہوگيا ہے.



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next