شبخ محمد ابن عبد الوھاب،وھابی فرقہ كا بانی



اسی طرح كتاب ناسخ التواریخ جلد قاجاریہ ھے جس میں كربلا معلی پر وھابیوں كے حملہ كو1216ھ (فتح علی شاہ كی بادشاھت كے زمانہ میں) تفصیل سے بیان كیا ھے، مذكورہ كتاب میں محمد بن عبد الوھاب كے بارے میں یوں لكھا ھے كہ عبد الوھاب (صحیح نام محمد بن عبد الوھاب)عرب كے دیھاتی علاقہ كا رہنے والا تھا اور اس نے بصرہ كا سفر كیا اور وھاں محمد243 نامی ایك عالم دین سے ایك مدت تك تحصیل علم كیا، اور اس كے بعد وھاں سے ایران كا سفر كیا اور اصفھان میں قیام كیا اور وھاں كے علماء سے علم نحو وصرف اور اصول وفقہ میں مھارت حاصل كی اور شرعی مسائل میں اجتھاد شروع كیا اوراصول دین اور فروع دین میں اپنا اجتھاد اس طرح بیان كیا كہ خدائے وحدہ لاشریك نے انبیاء اور رُسل بھیجے اور آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قرآن لے كر آئے اور اپنا دین پیش كیا اور آپ كے بعد تمام خلیفہ مجتہد تھے، مجتہدین كتاب خدا سے شرعی مسائل كو اخذ كرتے ھیں اس نے بھت سی چیزوں كو

بدعت قرار دیامنجملہ ان كے ائمہ كی قبور پر قبہ بنوانااور ان كو زر وسیم سے مزین كرنا، اور متبرك قبروں پر نفیس اور قیمتی چیزوں كو وقف كرنا، مرقدوں كا طواف كرنا اور ان كو چومنا وغیرہ كو شرك سمجھا اور ان جیسے كام كرنے والوں كا بت پرست كا نام دیا، وغیرہ وغیرہ ۔ 244

امریكن رائیٹر ”لوٹروپ اسٹووارڈ “ نے بھی محمد بن عبد الوھاب كے ایران سفر كے بارے میں لكھا ھے۔ 245

جناب احمد امین صاحب كسی مدرك اورمآخذ كاذكر كئے بغیر اس طرح كھتے ھیں: شیخ محمد بن عبد الوھاب نے بھت سے اسلامی ممالك كا سفر كیا اور تقریباً چار سال تك بصرہ میں، پانچ سال بغداد میں، ایك سال كردستان میں اور دوسال ھمدان میں قیام كیا، اور اس كے بعد اصفھان گیا، اور وھاں پر فلسفہ اشراق اور صوفیت كی تعلیم حاصل كی، وہ وھاں سے قم بھی گیا اور وھاں سے اپنے ملك واپس چلا گیا اور تقریباً آٹھ مھینے تك لوگوں سے دور رھا اور جب ظاھر هوا تو اپنا جدید نظریہ لوگوں كے سامنے پیش كیا۔ 246

دعوت كا اظھار

شیخ محمد بن عبد الوھاب نے اپنے باپ كے مرنے كے بعد اپنے عقائد كو ظاھر كرنا شروع كردیا اور لوگوں كے بھت سے اعمال كو ممنوع قرار دینے لگا، ”حُرِیْمَلِہ“ كے كچھ لوگو ں نے اس كی پیروی كرنا شروع كردی اور یہ اسے شھرت ملنے لگی شھر حریملہ كے دو مشهور قبیلے تھے جن میں سے ھر ایك كا دعویٰ یہ تھا كہ ھم رئیس ھیں، ان میں سے ایك قبیلہ كا نام حَمیان تھا ان كے پاس ایسے غلام تھے جو فحشاء ومنكر اور فسق وفجور میں مرتكب رھا كرتے تھے۔

چنانچہ شیخ محمد بن عبد الوھاب نے ان كو امر بالمعروف اور نھی عن المنكر كرنا چاھا، لیكن جیسے ھی ان كو پتہ چلا تو انھوں نے یہ طے كرلیا كہ آج رات میں مخفی طریقہ سے شیخ محمد بن عبد الوھاب كو قتل كردیا جائے یھاںتك كہ اسی پروگرام كے تحت ایك دیوار كے پیچھے چھپے هوئے تھے كہ اچانك بعض لوگوں كو ان غلاموں كے پروگرام كا پتہ چل گیااور انھوں نے شور مچانا شروع كردیا جس كی بناپر غلاموں كو مجبوراً بھاگنا پڑا، اور شیخ محمد بن عبد الوھاب كی جان بچ گئی، اس كے بعد شیخ محمد بن عبد الوھاب حریملہ سےشھر ”عیینہ“ چلا گیا، اس وقت شھر عیینہ كا رئیس عثمان بن حمد بن معمر نامی شخص تھا عثمان نے شیخ كو قبول كرلیا اور اس كا احترام كیا اور اس كی نصرت ومدد كرنے كا فیصلہ كرلیا،اس كے مقابلہ میں شیخ محمد بن عبد الوھاب نے بھی یہ امید دلائی كہ تمام نجد پر غلبہ حاصل كركے سب كو اس كا مطیعبنادے گا۔

شیخ محمد بن عبد الوھاب نے اس كے بعد سے (اپنے عقیدہ كے مطابق) امر بالمعروف اور نھی عن المنكر پورے زور وشور سے كرنا شروع كردیا، اور لوگوں كے ناپسند اعمال پر شدت سے اعتراض كرنے لگا، شھر عیینہ كے لوگوں نے بھی اس كی پیروی كرنا شروع كردی، اس نے حكم دیا كہ وہ درخت جن كو لوگ احترام كی نظر سے دیكھتے ھیں كاٹ دیئے جائےں چنانچہ ایسے سبھی درختوں كو كاٹ دیا گیا اور اسی طرح زید بن الخطاب كی قبر پر بنے گنبد اور عمارت كو گرا دیا گیا۔ 247

زید كی قبر جبلیہ میں (عیینہ كے نزدیك) تھی شیخ محمد بن عبد الوھاب نے عثمان سے كھا كہ آوٴ زید كی قبر اور اس كے گنبد كو گراتے ھیں تو اس موقع پر عثمان نے كھا آپ جو كچھ كرنا چاھیں كریں، ویران كردیں، اس پر شیخ محمد بن عبد الوھاب نے عثمان سے كھا ھم اس وقت اس كی قبر كو منہدم كرسكتے ھیں كہ جب تم ھماری مدد كرو۔

عثمان نے 600افراد كو اس كے ساتھ بھیج دیا جب یہ لوگ وھاں پہنچے تو جبلیہ شھر كے لوگوں نے ممانعت كرنا چاھی لیكن چونكہ عثمان كے مقابلہ میں جنگ نھیں كرسكتے تھے لہٰذا پیچھے ہٹ گئے، عثمان نے شیخ سے كھا میں قبر كو توڑنے میں ھاتھ نھیں لگاؤنگا، تو اس موقع پر شیخ محمد بن عبد الوھاب خود آگے بڑھااور تبر كے ذریعہ قبر كو ڈھا كر زمین كے برابر كردیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next