شبخ محمد ابن عبد الوھاب،وھابی فرقہ كا بانی



اسی دوران ایك عورت شیخ كے پاس آئی اور اعتراف كیا كہ اس نے زنا محصنہ (شوھر دار عورت كا زنا)كیا ھے، شیخ محمد بن عبد الوھاب نے اس كی عقل كو پركھنا شروع كیا تو اس كو صحیح پایا پھر اس عورت سے كھا كہ شاید تجھ پر تجاوز اور ظلم هوا ھے لیكن اس عورت نے پھر اس طریقہ سے اعتراف كیا كہ اس كو سنگ سار كرنے كی سزا ثابت هوتی تھی، چنانچہ شیخ محمد بن عبد الوھاب نے اس كو سنگسار كئے جانے كا حكم صادر كردیا۔ 248

شیخ محمد بن عبد الوھاب سے امیر اَحساء كی مخالفت

شیخ محمد بن عبد الوھاب كے عقائداور اس كے نظریات كی خبر سلیمان بن محمد احساء كے حاكم شھر كو پهونچی اس نے عیینہ شھر كے امیر عثمان كو ایك خط لكھا كہ جو شخص تمھارے پاس ھے اس نے جو كچھ كھا یا جو كچھ كیا میرا خط پہنچتے ھی اس كو قتل كردےا جائے اور اگر تو نے یہ كام نہ كیا تو جو خراج احساء سے تیرے لئے بھیجتا هوں اس كو بند كردونگا، جبكہ یہ خراج 1200 سونے كے سكّے اور كچھ كھانے پینے كی چیزوںاور لباس كی شكل میں تھا۔

جس وقت امیر احساء كا یہ سخت خط عثمان كے پاس پہنچا وہ اس كی مخالفت نہ كرسكا چنانچہ شیخ محمد بن عبد الوھاب كو اپنے پاس بلایا اور كھا كہ ھم میں اتنی طاقت نھیں ھے كہ امیر احساء كا مقابلہ كرسكیں، شیخ نے اس كو جواب دیا كہ اگر تم میری مدد كروگے تو تمام نجد كے مالك هوجاؤگے! عثمان نے اس سے روگرانی كی اور كھا: احساء كے امیر نے تمھارے قتل كا حكم دیا ھے لیكن میری غیرت گوارا نھیں كرتی كہ میں تمھیں اپنے شھر میں قتل كردوں، تم اس شھر كو چھوڑ دو، اور اس كے بعد فرید ظفری نامی شخص كو معین كیا كہ اس كو عیینہ شھر سے باھر چھوڑدے۔

شیخ محمد اور آل سعود كے درمیان تعلقات كا آغاز

جس وقت شیخ محمد بن عبد الوھاب كو شھر عیینہ سے باھر نكال دیا گیا، وہوھاں سے دِرْعِیَّہ شھر (نجد كا مشهور شھر)كی طرف چل پڑا ،اور یہ1160ھ كا زمانہ تھا عصر كے وقت وھاں پهونچا اور وھاں عبد اللہ بن سُویلم نامی شخص كے یھاں مھمان هوگیا، اس وقت درعیہ شھر كا حاكم محمد ابن سعود (آل سعود كا دادا) تھا محمد ابن سعود كی بیوی موضیٰ بنت ابی وحطان آل كثیر سے تھی جو بھت زیادہ عقلمند اور هوشمند تھی۔ اور جب یہ عورت شیخ محمد كے حالات سے باخبر هوئی، تو اس نے اپنے شوھر سے یہ كھا كہ اس شخص كو خدا كی طرف سے بھیجی هوئی ایك نعمت اور غنیمت سمجھو جس كو خدا نے ھمارے پاس بھیجا ھے اس كو غنیمت جانو اور اس كا احترام كرو اور اس كی مدد كو غنیمت شمار كرو۔

محمد بن سعود نے اپنی بیوی كی پیش كش كو مان لیا چنانچہ عبد اللہ بن سویلم كے گھر شیخ محمد بن عبد الوھاب سے ملاقات كے لئے گیا اور اس كی بھت زیادہ عزت اور تعریف كی، اس نے بھی محمد كو تمام نجد پر غلبہ پانے كی بشارت دی اور حضرت پیغمبراكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ كے اصحاب كی سیرت، امربالمعروف اور نھی عن المنكر نیز راہ خدا میں جھاد كے بارے میں گفتگو كی اور اسی طرح اس كو یادھانی كرائی كہ ھر ایك بدعت 249 گمراھی ھے،اور اھل نجد بھت سی بدعتوں كے مرتكب هوتے ھیں اور ظلم كے مرتكب هوتے ھیں اور اختلافات اور تفرقہ سے دوچار ھیں۔

محمد بن سعود نے شیخ محمد بن عبد الوھاب كی باتوں كو اپنے دین اور دنیا كے لئے مصلحت اور غنیمت شمار كیا اور ان سب كو قبول كرلیا، اس نے بھی محمد بن عبد الوھاب كو بشارت دی كہ وہ اس كی ھر ممكن مدد ونصرت كرے گا، اور اس كے مخالفوں سے جھاد كرے گا، لیكن اس كی دوشرط هوگی پھلی یہ كہ جب اس كا كام عروج پاجائے تو شیخ اس سے جدا نہ هو اور كسی دوسرے سے جاكر ملحق نہ هوجائے اور دوسری شرط یہ كہ اس كو یہ حق حاصل هو كہ جو مالیات اور خراج ھر سال شھر درعیہ والوں سے لیتا تھا اس كو لیتا رھے، چنانچہ محمد بن عبد الوھاب نے اس كی پھلی شرط كو مان لیا اور دوسری شرط كے بارے میں كھا :

”ھمیں امید ھے كہ خداوندعالم كی مدد سے وہ خراج جو تم وصولتے هو اس سے كھیں زیادہ فتوحات اور غنائم تم كو پهونچیں گی۔

اس طرح محمد بن عبد الوھاب اور محمد بن سعود نے ایك دوسرے كی بیعت كی اور یہ طے كرلیا كہ اپنے مخالفوں سے جنگ اور امر بالمعروف ونھی عن المنكر اور (اپنے عقائد كے مطابق)دین كے احكام و عقائد كو نافذ كریں گے، اس كے بعد قرب وجوار كے قبیلوں كے رئیسوں نے بھی ان كی حمایت كی250 ”فِلیپ حتّی“ و”گلدزیھر “ اور دیگر رائٹروں نے اس بات كو لكھا ھے كہ محمد بن عبد الوھاب نے محمد بن سعود كو اپنا داماد بنالیا251 اور یہ بات طے ھے كہ اگر یہ نئی رشتہ داری صحیح هو تو پھردونوں میں بھت قریبی تعلقات ثابت هوجاتے ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next