شبخ محمد ابن عبد الوھاب،وھابی فرقہ كا بانی



1204ھ میں امیر عبد العزیز اور شیخ محمد بن عبد الوھاب نے شریف غالب كی درخواست كے مطابق دوبارہ شیخ عبد العزیز حصینی كو مكہ بھیجا، لیكن اس مرتبہ مكہ كے علماء اس سے بحث كرنے كے لئے تیار نھیں هوئے۔

ابن غنام نجدی كھتا ھے كہ شریف غالب نے نجدیوں كی دعوت اور ان كے عقائد كو قبول كرلیا، ممكن ھے یہ ایك تظاھر اور دكھاوا هو، تاكہ اس طرح سے وہ نجدیوں كے جنگ كرنے اور ا ن كی دعوت كو ختم كرنے كے اپنے ارادہ كو مخفی ركھ سكے۔

اس سلسلہ میںسید دَحلان كھتے ھیں كہ امیر نجد نے شریف مسعود كے زمانہ میں حج كرنے كی اجازت مانگی، كیونكہ اس نے اس سے پھلے نجد كے 30 علماء كو مكہ معظمہ بھیجا تھا اور شریف مسعود سے درخواست كی تھی كہ علماء حرمین شریفین كا نجدی علماء سے مناظرہ كرائے لیكن شریف مسعود نے قاضی شرع كو حكم دیا كہ نجدیوں كے كفر كا فتویٰ صادر كردے اور پھر حكم دیا كہ ان نجدی علماء كو قید خانے میں ڈال كر ان كے پیروں میں زنجیر ڈالدی جائے۔ چنانچہ اسی طرح كے واقعات كافی عرصہ تك هوتے رھے۔ 255

شیخ محمد بن عبد الوھاب كی سیرت اور اس كا طریقہ كار

اس سلسلہ میں ابن بشر كھتا ھے كہ جس وقت محمد بن عبد الوھاب نے درعیہ شھر كو اپنا وطن قرار دیا اس وقت اس شھر كے بھت سے لوگ جاھل تھے اور نماز وزكوٰة كے سلسلہ میں لاپرواھی كرتے تھے، نیز اسلامی مراسم كے انجام دینے میں كوتاھی كرتے تھے، چنانچہ شیخ محمد بن عبد الوھاب نے سب سے پھلے ان كو ”لا الہ الا اللّٰہ“ كے معنی سكھائے كہ اس كلمے میں نفی بھی ھے اور اثبات بھی اس كا پھلا حصہ (لاالہ) تمام معبودوں كی نفی كرتا ھے اور اس كا دوسرا حصہ (الا اللہ) خدائے وحدہ لاشریك كی عبادت كو ثابت كرتا ھے، اس كے بعد شیخ محمد بن عبد الوھاب نے ان كو ایسے اصول بتائے جن كے ذریعہ سے خدا كے وجود پر دلیل حاصل هوجائے مثلاً چاند وسورج، ستاروںاور دن رات كے ذریعہ خدا كو سمجھا جاسكتا ھے، اور ان كو یہ بتایا كہ اسلام كے معنی خدا كے سامنے تسلیم هونے، اور اس كی منع كردہ چیزوں سے

اجتناب كرنے كے ھیں، اسی طرح ان كو اسلام كے اركان بتائے اور یہ بتایا كہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا نام اور نسب كیا ھے، اور بعثت او رہجرت كی كیفیت بتائی اور یہ بتایا كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی سب سے پھلی دعوت كلمہ ”لا الہ الا اللّٰہ“تھا اور اسی طرح بعث اور قیامت كے معنی لوگوں كو بتائے اور مخلوق خداچاھے جو بھی هو، سے استغاثہ كرنے كی ممانعت میں بھت مبالغہ كیا۔

شیخ محمد بن عبد الوھاب نے اس كے بعد نجد كے رؤساء اور قاضیوں كو خط لكھا اور اس میں لكھا كہ اس كی اطاعت كریں اور اس كے مطیع وفرمانبردار بن جائیں، جس كے جواب میں بعض لوگوں نے قبول كرلیا اور بعض نے اس كی اطاعت كرنے سے انكار كردیا اور شیخ كی دعوت كا مذاق اڑایا اور اس پر الزام لگایا كہ شیخ تو جاھل ھے اور معرفت بھی نھیں ركھتا، بعض لوگوں نے اس كو جادو گر بتایا جبكہ بعض لوگوں نے اس پر بری بری تھمتیں بھی لگائیں۔

شیخ محمد بن عبد الوھاب نے اھل درعیہ كو جنگ كا حكم دیدیا جنھوں نے كئی مرتبہ اھل نجد سے جنگ كی، یھاں تك كہ ان كو شیخ كی اطاعت پر مجبور كردیا، اور آل سعود، نجد اور اس كے قبیلوں پر غالب آگیا۔

محمد بن عبد الوھاب كاغنائم جنگی كو تقسیم كرنے كا طریقہ یہ تھا كہ وہ خود جس طرح چاھتا تھا انجام دیتا تھا اور اس كو خرچ كرتا تھا كبھی كبھی بھت سارا مال جو غنائم جنگی میں ملتا تھا اس كو صرف دو یا تین لوگوں میں تقسیم دیتا تھا، كیونكہ جتنے بھی جنگی غنائم هوتے تھے وہ شیخ كے پاس رھتے تھے، یھاں تك امیر نجد بھی اس كی اجازت سے ھی ان غنائم میں دخل وتصرف كرتا تھا۔

اس كے علاوہ امیر نجد اگر اپنے سپاھیوں كو مسلح كرنا چاھتا تھا اور اس سلسلہ میں كوئی بھی قدم اٹھانا چاھتا تھا وہ سب كچھ شیخ محمد بن عبد الوھاب كی اجازت سے كیا كرتا تھا۔ 256



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next