اھل بیت علیھم السلام سے محبت اور اس کے آثار (1)



دل ھلادینے والی سختیاں جو ھمارے سامنے ھیں سب لوگوں سے اور سب چیزوں سے جدائی یعنی موت کا لمحہ ھے کہ جو انسان کے بستر کے پاس ملک الموت کے ذریعہ انجام پاتاھے کہ شاید پھلی بار ھو کہ انسان کو غربت (و تنہائی) کا مکمل طور پر احساس ھو، لیکن یہ لمحہ اھل بیت علیھم السلام کے عاشقوں کے لئے تنہائی کا لمحہ نہ ھوگا، کیونکہ اس مخصوص وقت پر مرنے والا اپنے محبوبوں (اھل بیت علیھم السلام) کا دیدار کرے گا، اور اس کو ایسی خوشی حاصل ھوگی کہ جس کی توصیف نھیں ھوسکتی۔

کتاب شریف کافی میں روایت ھے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا: کیا مومن روح قبض ھونے کے وقت رنجیدہ ھوتا ھے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: نھیں، خدا کی قسم جب ملک الموت اس کی روح قبض کرنے کے لئے آئے گا تو وہ بے تابی (اور جلدی) کرے گا۔

ملک الموت کھے گا: اے خدا کے محبوب! بے تابی نہ کر، قسم ھے اس کی کہ جس نے محمد (صلی الله علیه و آله و سلم) کو مبعوث کیا، میں تیرے مہربان باپ سے بھی زیادہ مہربان اور نیکو کار ھوں، اپنی آنکھیں کھولو اور دیکھو، پس وہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم)، حضرت امیر الموٴمنین علی علیہ السلام، جناب فاطمہ زہرا سلام الله علیہا، امام حسن و امام حسین علیھما السلام اور دیگر ائمہ معصومین علیھم السلام کو سامنے دیکھے گا۔

اس سے کھے گا: یہ پیغمبر خدا (صلی الله علیه و آله و سلم)، امیر المومنین، جناب فاطمہ ، حسن و حسین اور ائمہ (علیھم السلام) تیرے محبوب اور رفیق ھیں ، چنانچہ وہ آنکھیں کھولے گا اور ان حضرات کی زیارت کرے گا۔۔۔[32]

حضرت امام حسین علیہ السلام کا آخری وقت حاضر ھونا

حقیر جب مقدس شہر قم میں اسلامی علوم اور اھل بیت علیھم السلام کی تعلیمات کی تحصیل میں مشغول تھا ، وقتاً فوقتاً ماں باپ کے دیدار کے لئے تہران آتا تھا۔

اس آمد و رفت میں مجاہد فی سبیل الله و شھید نواب صفوی کے ایک دوست سے جان پہچان ھوئی، اور ان کے ذریعہ کچھ ایسے حضرات سے ملاقات ھوئی کہ جن میں سے ایک تعداد واقعاً اولیائے الٰھی اور خدا کے مخصوص بندے تھے، اس گروہ سے میرے ملحق ھونے کی وجہ سے کہ اس وقت میری جوانی تھی، بہت سے معنوی برکتیں نازل ھوئیں اور میری تربیت اور معنوی رشد میں بہت زیادہ موٴثر ثابت ھوئیں۔

وہ گروہ صاحب کمال، مومن، عالم، اھل بیت علیھم السلام کے عاشق اور آل محمد علیھم السلام کے مصائب پر گریہ و زاری میں بے مثال تھا، ان میں سے ایک با کرامت اور بزرگوار شخصیت جناب حاج غلام علی قندی کی تھی۔

موصوف نے ایک روز مجھے گھر پر دعوت دی، ایک کمرہ دکھایا اور کہاکہ ھم نے اس کمرے کو مدتوں سے خطیب توانا، با عظمت اور کم نظیر سوز و گداز رکھنے ’والے”نظام رشتی“ کو دے رکھا ھے۔

نظام صاحب جو اپنی اھلیہ کی وفات کے بعد اپنی بیٹی کے ساتھ تنہا رہتے تھے اس کمرے میں زندگی بسر کرتے تھے، موصوف جب مجلس پڑھا کرتے تھے تو مصائب میں سب سے زیادہ خود گریہ و زاری کیا کرتے تھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 next