حضرات ائمہ علیہم السلام کی ولی عصر (عج)کےبارے میں بشارت



{أَوَلَمیَکفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیئٍ شَہِیدٌ} ([26])

اور اس کے بعد خود خداکی معرفت پیدا کرنے کے لیے اس کے وجود مبارک کے کافی ہونے کی دلیل کو اس طرح بیان کیا:

 {أَنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیئٍ شَہِیدٌ} ([27])

جس چیز کو بھی انسان دیکھنا چاہتا ہے ،پہلے خدا کو دیکھتا ہے۔

اس سے قبل کہ وہ دلیل Ú©Ùˆ پائے یا دلیل Ú©Ùˆ سمجھے خود اس ذات کودیکھ او ر سمجھ لیتا ہے کہ جس پر دلیل دلالت کر رہی ہے مذکورہ آیت میں”شہید”فعیل Ú©Û’ وزن پر ہے اور مفعول Ú©Û’ معنی میں ہے  نہ کہ فاعل Ú©Û’ معنی میں ([28]) اس لئے کہ اگر فاعل یعنی شاہد Ú©Û’ معنی میں ہو تو اس کا مطلب ہے کہ خدا وند عالم ہر جگہ اور ہر چیز کا شاہد ہے([29])

لہٰذا آفاقی اورانفسی نشانیوں کی ضرورت نہیں ہے، یہ استدلال آیت کے دعویٰ کے اعتبار سے کامل برہان نہیں ہے، چونکہ آیت کا دعویٰ یہ ہے کہ خدا وند عالم کی ذات کو پہچاننے والا آفاقی وانفسی نشانیوں سے بے نیاز ہے، لہٰذا لفظ "شہید" آیت میں مشہود یعنی مشاہدہ ہونے والے کے معنی میں ہونا چاہئے تاکہ اس طرح برہان کامل‌ہو:تمہیں ذات حق کو پہچاننے کے لئے آفاق عالم اور اپنے نفس کی نشانیوں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ حق ظہور اور شہود کی بلند ترین مرتبہ پر ہے اور اس وصف میں شدت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر چیز کے مشاہدہ سے پہلے وہ ذات مشہود ہو۔

وہ خدا جو “فی الاشیاء علی غیر ممازجۃ”  :بغیر مخلوط ہوئے چیزوں میں موجودہے اور بغیر کسی حد Ú©Û’ ہر جگہ  حاضر ہے  وہ اس اعتبار سے کہ

 {ãAqçts† šú÷üt/ ÏäöyJø9$# ¾ÏmÃŽ7ù=s%ur } ([30])

ہے۔ :اللہ آدمی  اور اس Ú©Û’ درمیان  حائل  ہے ۔اس Ú©Ùˆ کسی دوسرے Ú©Û’ ذریعہ جاننے Ú©ÛŒ ضرورت نہیں ہے:

 { 3 öNs9urr& É#õ3tƒ y7ÃŽn/tÎ/ ¼çm¯Rr& 4Â’n?tã Èe@ä. &äóÓx« Íky­} ([31])



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next