فيض نبوت و ولايت کي بقاء کا الوہي نظام



يہ کہہ کر بات ختم کر دي علي قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علي کے ساتھ، قرآن اللہ رب العزت کي آخري الہامي کتاب ہے۔ حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو چلتا پھرتا قرآن کہا جاتا ہے اوپر ہم نے ديکھا کہ حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اپني ذات سے علي (ع) کي ذات کو جدا نہيں کرتے۔ يہاں قرآن سے علي کے تعلق کي بھي وضاحت فرمائي کہ قرآن و علي اس طرح جڑے ہوتے ہيں کہ روز جزا بھي يہ تعلق ٹوٹنے نہ پائے گا اور علي اور قرآن اسي حالت ميں ميرے پاس حوض کوثر پر آئيں گے۔

قرابت دارانا ن رسول ہاشمي

29. صحيح مسلم شريف ميں حضرت سعد بن ابي وقاص رضي اللہ عنہ سے روايت ہے.

ولما نزلت هذه الاية ندع ابناء نا و ابناء کم دعا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عليا و فاطمة و حسناً و حسيناً فقال اللهم هؤلاء اهلي

جب يہ آيت (مباھلہ) کہ ’’ہم (مل کر) اپنے بيٹوں کو اور تمہارے بيٹوں کو بلاليتے ہيں،، نازل ہوئي تو رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے حضرت علي حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسين رضي اللہ عنہم کو جمع کيا اور فرمايا اے اللہ يہ ميرے اہل بيت ہيں۔(الصحيح لمسلم، 2 : 278)

جب آيت مباہلہ نازل ہوئي توحضور عليہ الصلوۃ والسلام نے عيسائيوں کو چيلنج کرتے ہوئے فرمايا کہ

1۔ ہم اپنے بيٹوں کو لاتے ہيں تم اپنے بيٹوں کو لاؤ۔ 2۔ ہم اپني ازواج کو لاتے ہيں تم اپني عورتوں کو لاؤ۔ بيٹوں کو لانے کا وقت آيا تو حضورعليہ الصلوۃ والسلام نے 1۔ حسن اور حسين رضي اللہ عنہ کو پيش کرديا۔ 2۔ عورتوں کا معاملہ آيا تو حضرت فاطمہ کو پيش کرديا اور اپني جانوں کو لانے کي بات ہوئي تو حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ علي (ع) کو لے آئے يعني حضرت علي (ع) کو اپني جان کے درجے پر رکھا۔ آيت اور حديث مبارکہ کے الفاظ پر غور فرمائيں آيت کريمہ ميں فرمايا جا رہا ہے کہ

تعالوا ندع أبناء ناو أبناء کم و نساء نا و نسائکم و أنفسنا و انفسکم

آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بيٹوں کو اور تمہارے بيٹوں کو اور اپني عورتوں کو اور تمہاري عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھي اور تمہيں بھي (ايک جگہ پر) بلا ليتے ہيں۔(آل عمران 3 : 61)

حديث پاک ميں فرمايا جا رہا ہے دعا عليا و فاطمۃ و حسنا ًو حسينا ًيعني عليا ً (انفسنا) اور فاطمۃ (نساء نا) اور حسنا ً و حسينا ً(ابناء نا) ہوئے۔ يہ عقيدہ کسي شيعہ کا نہيں اہلنست و الجماعت کا ہے اور جو لوگ اس مغالطے ميں مبتلا ہيں کہ اہلسنت حب علي يا حب اہل بيت اطہار سے عاري ہيں وہ دراصل خود فريبي ميں مبتلا ہيں، اہلسنت سواد اعظم بنتا ہي تب ہے جب ان نقوش قدسيہ سے محبت ان کے عقائد کا مرکز و محور بن جائے۔ سيدنا علي ہوں يا سيدہ کائنات اور حسنين کريمين يہ شجر نبوت کي شاخيں ہيں جن کے برگ و بار سے دراصل گلستان محمدي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ميں ايمان و عمل کي بہاريں جلوہ فگن ہيں ان سے صرف نظر کر کے يا ان سے بغض و حسد کي بيماري ميں مبتلا کوئي شخص حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا امتي کہلانے کا حقدار نہيں کجا کہ وہ ايمان اور تقويٰ کے دعوے کرتا پھرے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 next