خدا کی نظرمیں قدرو منزلت کا معیار



<فی مقعد صد ق عندملیک مقتدر>(القمر/۹۵۵)

”اس پاکیزہ مقام پرجو صاحب اقتدار  بادشاہ Ú©ÛŒ بارگاہ میں ہے۔“

اس نقطہٴ اور پہلو کے مدمقابل،زوال،پستی اور خداسے دوری ہے جب کوئی انسان خدا کی بندگی و عبادت اور انفرادی واجتماعی فرائص کو انجام دینے،خلاصہ یہ کہ انسانیت کے اصول سے جب انسان پہلو تہی اختیار کرلیتا ہے اور زوال کی راہ پر قدم رکھتا ہے توایک ایسی جگہ پر پہنچ جاتا ہے ،جہاں پر وہ حیوانوں سے بھی بدتر ہو جاتاہے:

<ان ہم الاکا لانعام بل ہم اضل>(فرقان/۴۴)

”یہ سب جانوروں  جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی Ú©Ú†Ú¾ زیادہ ہی گمراہ ہیں“

انسان کے ملکوتی والٰہی پہلووٴں کے لحاظ سے قدر ومنزلت کے بعد اس کا وجود ہے جواس کے دل کا سرچشمہ ہے اور وہاں سے دوسرے اعضاو جوارح پر جاری ہو تا ہے ۔خدا کی یاد میں زبان کا ایک کردار ہے، آنکھ کا قرآن مجید کی تلاوت میں ،کانوںکا حق بات کے سننے میں اور ہاتھ اور پاؤں کا خدا کی راہ میں گامزن ہونے کے لئے ایک اہم رول ہے ۔پس اگر ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں خدا کے ذکر کی اس قدرتعریف کی گئی ہے ،یااگرانسان کے لئے واجب قرار پایا ہے کہ روزانہ پانچ وقت نماز پڑھے ،وہ اس جہت سے ہے کہ انسان کی زندگی کی ذ کر خدا کے بغیر کوئی قیمت نہیں ہے اور صرف اسی راہ سے قرب الہی تک پہنچ سکتا ہے۔

اسلام اور تمام الہی ادیان انسان کےلئے دو متضاد اقدار ،مثبت ومنفی کے بے حد قائل ہیں ۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جوانسان کے معمولی معیا روں سے قابل درک نہیں ہیں اور صرف الٰہی معیاروں سے قابل تو جیہ ہیں ۔اس کے علاوہ اسلام نہ صرف انسان کی مجموعی عمر کے لئے اس قسم کی قدر وقیمت کا قائل ہے بلکہ اس کی عمرکے گھنٹوں کے لئے بھی اس قدر واہمیت کا قائل ہے ،یعنی اسلام کہتا ہے : انسان ایک گھنٹے کے اندراپنے وجودی قدر ومنزلت کو لامتناہی منزلتک پہنچاسکتا ہے،وہ ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو خوش قسمت بنا سکتا ہے اور ابدی و بے نہایت سعادت تک پہنچ سکتا ہے اور ایک گھنٹے کے اندرشقاوت اور بے نہایت بدقسمتی کو بھی اپنے لئے فراہم کرسکتاہے۔پس اسلام کی نظرمیںقدر ومنزلت کا معیار انسان کی صلا حیت،اور خود کی شا ئستگی اوراسکی صالح نیت ہے اورحتی اسلام کی نظر میں ایک شخص کا معاشرے کے لئے مفید ہونا قدرومنزلت کامعیار نہیں ہے ،اگر چہ معاشرہ فرد کے لئے جس اہمیت کا قائل ہے وہ اس فرد کا معاشرے کے لئے مفید ہونے کے اعتبار سے ہے ،اسلام نہ صرف ایسے فرد کے لئے قدر وقیمت کا قائل نہیں ہے بلکہ اس کے لئے منفی تصور رکھتا ہے،چونکہ وہ شخص اندر سے فاسد ہے اور اپنے دلفریب وپسندیدہ ظاہر کے پیچھے ایک گری ہوئی اور پست وآلودہ ذہنیت رکھتا ہے۔

اس بنا پر ممکن ہے ایک فرد معاشرے کے لئے زیادہ فائدہ مند ہو،لیکن خود بدبخت اس عالِم دین کے مانندجولوگوںکودینی معارف سکھا تا ہے اور لوگ اس سے استفادہ کرتے ہیں اور سعادت حاصل کرتے ہیں،لیکن وہ خودبدبخت ہے چونکہ وہ اپنے علم پرعمل نہیں کر تاہے ،اس لئے جہنم میں جائے گا۔یا اس دولت مند کے مانندجو اپنامال معاشرے پر خرچ کر تاہے اور عوام کی بہبودی کے خدمت انجا م دیتا ہے ،لیکن اس کا مقصدشہرت حاصل کر نا اور لوگوں کے درمیان سر بلند ہوناہے اس لئے یقینااس کا کام اسلام کی نظر میںکوئی قدرو قیمت نہیںرکھتا ہے ۔جو چیز انسان کے وجوداور اس کے اعمال کو قدرو قیمت بخشتی ہے،وہ اس کا ابدیت اور عالم بے نہایت سے رابطہ ہے یہ رابطہ ایک قلبی رابطہ ہے اور نیت و خداسے دل کی تو جہ کے ذریعہ حاصل ہو تا ہے۔

پس اگر خدا کے لئے کوئی کام انجام دیا جاتا ہے،اس کی قیمت بے نہایت ہے،خواہ ظاہر میںوہ کام چھوٹا ہو یا بڑا۔ فطری بات ہے کہ جس قدر خدا کے بارے میں انسان کی معرفت ز یادہ ہوگی اور کام کو اخلاص کے ساتھ انجام دےا جائیگا اسی اعتبار سے ،اس کی قدر وقیمت زیادہ ہو گی ،اس کے برعکس جس قدر اس کاخلوص کم تر ہوگااوراس کی توجہ لوگوں کی طرف اور ان کا دل جیتنے کے لئے اور شہرت وجاہ طلبی پر مر کوز ہو،کی اس کی اہمیت اور وقعت کم ہوتی جائیگی اگر چہ حجم کے لحاظ سے عظیم بھی ہو ،نتیجہ کے طور پر جو چیز انسان کی زندگی کو قدر واہمیت بخشتی ہے ،وہ حقیقت میںخدا کی طرف توجہ ہے ۔اگر انسان خدائے متعال کی یاد میں ہو تواس کے لئے کام انجام دے سکتا ہے،اس کے بغیر ممکن نہیں ہے وہ خدا کے لئے کام کرے اور نتیجہ کے طورپر اس کے کام کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہو گی۔

اسلام کی نظر میں مفید اور قابل قدر مشغلے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next