خدا کی نظرمیں قدرو منزلت کا معیار



نیت اور اندورونی رجحانات کی اہمیت:

”یا اباذر!ان اللّٰہ تبارک وتعالی لا ینظر الی صورکم ولا الی اموالکم و اقوالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعما لکم“

”اے ابوذر!خداوند تبارک وتعا لی تمہاری چیزوں یا تمہارے مال ودولت (اور باتوں)کو نہیں دیکھتا ہے ،بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتاہے۔“

       (اصطلاح”صورکم“کے بعداصطلاح ”اقوالکم“ کااستعمال مناسب ترو صحیح تر لگتا ہے البتہ اصطلاح ”اموالکم“ کا استعمال بھی ممکن ہے صحیح ہو۔)

خدائے متعال افراد Ú©Û’ ظاہر پر نگاہ نہیں کرتا ہے کہ وہ کیا کہتے ہیں اور کیادعوی کرتے ہیں Û” یعنی کس Ú©ÛŒ پیشانی پر سجدہ Ú©Û’ نشان نمایاں ہے یا کس Ù†Û’ کون سالباس پہنا ہے،اس پرنظر نہیں کر تا ہے بلکہ افرادکے دلوں پر نظر ڈالتا ہے اور ان Ú©Û’ اعمال Ú©Ùˆ دیکھتاہے کہ کس قدر وہ اپنے دعوے میں سچاہے Û” وہ دیکھتاہے کہ جو Ú©Ú†Ú¾ اس Ú©Û’ دل میں ہے کیا وہ اسکے ظاہر سے بہتر ہے،یاخدانخواستہ اس کا باطن پلید  اور آلودہ ہے اورظاہرخوشنما!کہ اس صورت میں نہ صرف خدائے متعال اسے  کوئی ثواب نہیں دیتاہے بلکہ اسے منافقین Ú©Û’ زمرے میں قرار دیتاہے Û”

 Ø­Ø¯ÛŒØ« کا یہ حصہ دل ہلا دینے والا اور متنبہکر Ù†Û’ والا ہے اوراگران انتباہات پر سنجیدہ Ú¯ÛŒ سے غور کیا جائے تو اس صورت میں اپنے بارے میں بہت سے فیصلے Ú©Ùˆ تبدیل کرنا Ù¾Ú‘Û’ گا Û”(البتہ دوسروں Ú©Û’ بارے میں ہمیں حسن ظن رکھنا چاہئے ) اگر انسان اپنی نیتوں کوٹٹو Ù„Û’ ،تواسے معلوم ہوگاکہ اس میں بہت سی خامیاں ہیں اور وہ خدا Ú©Û’ لئے خالص نہیں ہے،کم از Ú©Ù… اسکی نیتوں کا ایک حصہ غیرالٰہی ہے اور وہ کسی دوسرے انسان کوخدائے متعال کا شریک قرار دیتا ہے اورخدائے متعال Ù†Û’ خود فرما یا ہے کہ اگر کسی Ù†Û’ کسی دوسرے کومیراشریک قرار دیا،تو اپنے حصہ کوشریک پر ہی چھوڑتا ہوں۔( یعنی اسے چاہئے کہ اس Ú©ÛŒ جزا شریک سے دریافت کرے)

 ÛÙ…یں دیکھنا چاہئے کہ جو ہم بات کرتے ہیں جوکام انجام دیتے ہیں ،سبق پڑھتے ہیں ،موعظہ کرتے ہیں یاجونماز ہم باجماعت پڑھتے ہیں انمیں ہماری نیت اورغرض کیاہے ․کیا ہم اس لئے نماز جماعت Ú©Û’ لئے جاتے ہیں کہ خدااسے پسند کرتاہے ،یااس Ú©Û’ علاوہ دوسرے اغراض Ùˆ مقاصدہیں؟اگر ہمارے عبادی کام خالص نہ ہوں اور ان میں غیر الہی اغراض شامل ہوں تو ہمارے دیگرتمام کاموں  میں بھی نیت خا لص نہیں ہوگی۔اس Ú©Û’ علاوہ اگر ہمارے عبادی اعمال وفرائض خالص نہ ہوںتو وہ اصلا باطل ہیں ۔ممکن ہے لوگوں Ú©ÛŒ ہدایت کرنے والوںکی عبادتوں میں ر یا ØŒ ظاہرداری ،اور نفسانی اغراض Ú©ÛŒ دخالت جیسی آفتیں ØŒ دوسروں سے زیادہ پائی جاتی ہوں ۔ایک مزدوراور کسب معاش کرنے والاجو روز مرہ Ú©Û’ کام اور تکان Ú©Û’ بعد،سورج ڈوبتے ہی ایک مختصرنماز پڑھتاہے ،وہ ریا نہیں کرتاہے۔لیکن جو امامت جماعت Ú©ÛŒ ذمہ داری انجام دیتاہے اور لوگوں Ú©Ùˆ موعظہ، علوم دینی Ú©ÛŒ تعلیم اوردوسروں Ú©ÛŒ ہدایت میں وقت صرف کرتا ہے ،اس Ú©Û’ لئے ریا کا مسئلہ اورغیرالٰہی عناصر Ùˆ مقاصدمیںآلودہ ہونا واقعی طور پر حساس ہے اس لئے کہ ریا میں آلودہ ہونے Ú©ÛŒ صورت میں ممکن ہے انسا Ù† دنیوی ضرر سے بھی دوچارہو گا اور آخروی نقصان سے بھی اٹھانا Ù¾Ú‘Û’ گا۔

اس Ú©Û’ بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بیان کہ ظاہری رفتارواعمال اورتقوی کادعوی کرناتقوی Ú©ÛŒ دلالت نہیں ہے اورتقوی ایک ایسی خصوصیت ہے کہ جو افراد Ú©Û’ باطن  اور اس Ú©Û’ دل Ú©Û’ اندر پایا جاتا ہے اور یہ عمل Ú©ÛŒ بلندی اورنیت ومقصدکے خالص ہونے کا معیار ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سینہ Ú©ÛŒ طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”یا اباذر!التقوی ہیٰہنا،التقوی ہیٰہنا“

 â€Ø§Û’ ابوذر !تقوی یہاں ہے ،تقوی یہاں ہے“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next