خدا کی نظرمیں قدرو منزلت کا معیار



جوبھی ظاہر میں،شائستہ اعمال انجام دیتاہے ،نمازیں زیادہ پڑھتاہے اہل ذکراور لوگوں کی خدمت کرنے والا ہے تو یہ سارے امور اس بات کی دلیل نہیں ہیں کہ وہ شخص باتقوی ہے،بلکہ اس کی نیت اور اس کے اندر کے عوامل کو دیکھنا چاہئے اگر خالص خدا کے لئے تھے تو وہ شخص متقی ہے ورنہ ظاہرا تقوی نمائی کرتاہے ۔

ہم نے اس سے پہلے کہا کہ کبھی محر مات سے پرہیز ،تکالیف اور واجبات پر عمل کرنا تقوی ہے اور کبھی اس ملکہ نفسانی کوتقوی کہتے ہیںجو شائستہ وصالح اعمال کا سرچشمہ ہو،اس تصور کے پیش نظر،ہمارے اعمال،ہماری عبادتیں اور دیگر نیکیاں اس وقت تقوی کا مصداق بنیں گی کہ جب ان کا منشا وبنیاد خداکی محبت ہو اور ان کا محرک رضای الہی ہو۔پس ہمیںعمل کی بنیادپرسنجیدگی سے غور کرنا چاہئے ،کیونکہ کوئی بھی کام کسی محرک اورنفسانی انگیزہ کے بغیرانجام نہیں دیا جاتا۔انسان کے اختیاری اعمال اس کے اندرونی ارادے اورنیت کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں اور وہ انگیزہ انسان کے اندر کام کوانجام دینے کاشوق پیدا کرتا ہے اور حقیقت میںوہ رفتار وگفتارہماری نیت وارادہ کامظہر ہے ۔البتہ ممکن ہے انسان کسی کام کو انجام دینے کی نیت رکھتا ہواوراپنے آپ کواس کام کوانجام دینے کےلئے آمادہ کرے ،لیکن اس کام کے خارجی عوامل ایک دفعہ نابو دہو جائیں اور وہ اس کام کوانجام دینے سے قاصر ہو جائے۔اس صورت میں کام کا معنوی اثر اس کے دل میںباقی رہتاہے،اگر چہ خارج میںاسکا کوئی اثر رونما نہیں ہوا ہے۔وہ اثرمعنوی اسکے داخلی میلان اورنیت پر منحصر ہے کہ جس کو روایت میں لفظ (ھم)سے تعبیر کیاگیا ہے۔

 Ù¾ÛŒØºÙ…بر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ Ùˆ سلم فرماتے ہیں:دیکھ لو کہ تمھارے کام کا محرک کہاں سے  وابستہ ہے تمھارے داخلی رجحانات کس سمت میں گامزن ہیں۔کیاخدا اوراس Ú©ÛŒ مرضی پر تمہاری نظر ہے ØŒ یالوگوںاور اپنے دنیوی منافع پر ؟اگر تم Ù†Û’ کام کوغیر الٰہی محرک Ú©Û’ ایماء پر انجام دیا ہے، خواہ وہ کام نیک اور پسندیدہ ہو،لیکن اس میں معنوی اور الہی اثر پیدا نہیں ہوسکتا ،حتی اگر وہ کام دین Ú©ÛŒ ترویج اور اشاعت کا سبب بھی بنے جب بھی انسان Ú©ÛŒ سعادت کا سبب نہیں بن سکتا ØŒ کیو نکہ الٰہی نیت اس میں نہیں ہے جو خداکاتقرب حاصل کرنے کاسبب ہو۔خدائے متعال ØŒ عمل Ú©Û’ باطن اوراسکے انجام دئے جانے والے منشا پر نظر رکھتا ہے۔اب اگر وہ منشا Ùˆ محرک الٰہی تھا تواس عمل Ú©Ùˆ قبول کرتا ہے ورنہ عمل Ú©Ùˆ مسترد کردیتا ہے اورعمل Ú©ÛŒ ظاہر ÛŒ صورت سے کوئی سرو کار نہیں رکھتا ہے:

<لن ینال اللہ لحومہا ولادماوہا ولکن  ینالہ التقوی  منکم> (حج/Û³Û·)

”خدا تک ان جانوروںکانہ گوشت  جانے والا ہے نہ خون ۔اس Ú©ÛŒ بارگاہ میں صرف تمہارا تقوی جاتاہے۔“

  محرک اورنیت Ú©Ùˆ صحیح وسالم بنانے کاراستہ:

پس صور ت عمل کا خدا سے کوئی ربط نہیں ہے ،بلکہ صورت عمل کالوگوںاورطبیعت سے رابطہ ہے جوچیز عمل کوخدا سے مربوط بناتی ہے وہ انسان کادل اور اسکی نیت ہے۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے فرمودات کے پیش نظر ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کونسامحرک ہمیں وہ کام انجام دینے کا سبب بنا ہے اگر ہمارے محرکات خالص نہ تھے،ہمیں انھیں خالص کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔البتہ نیتوںاور محرکات کوخالص کرنا ایک مشکل کام ہے اور اسکے لئے مقدمات و مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اس راہ میں سب سے پہلے ہمیں خدا سے مدد مانگنی چاہئے اورغیر الہی تمایلات کے شائبوں سے اپنے نفس کو پاک کرنے کے لئے عزم وارادہ کی ضرورت ہے ریاضت ،مشق اور خود سازی سے ہمیں یہ مرحلہ حاصل ہو سکتا ہے۔

ممکن ہے جب انسان دیکھے کہ اس کی نیت خالص نہیں ہے اور اس میں غیر الٰہی عنصر شامل ہے تو وہ اپنی نیت کو خالص کرنے کے لئے کوشش کرنے کے بجائے کام کوہی ترک کردے ۔یہ بھی شیطان کاپھندا ہے کہ جو انسان کونیک کام انجام دینے سے روکتا ہے۔مثلا جب عشرئہ محرم آتاہے ،فیصلہ کرتاہے تبلیغ کے لئے جائے ،لیکن جب اپنے انگیزہ اورنیت پرغورو خو ض کرتاہے تواسے ناخالص پاتاہے اورتبلیغ پرجانے سے ہی منصرف ہوجاتا ہے اوراپنے آپ سے کہتا ہے:چونکہ میری نیت خالص نہیں ہے۔اس لئے تبلیغ پر نہیں جاؤں گا ۔یہ کام بالکل وہی ہے جو شیطان چاہتاہے۔کیونکہ انسان کا فرض یہ ہے کہ تبلیغ پر جائے اور لوگوں کو ہدایت کرے ،اگر ہم نے شیطان کے وسوسہ کی وجہ سے تبلیغ پر جانا چھوڑ دیا،تو شیطان کوایک مناسب فرصت مل گئی کہ جس میں وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے۔اس بناپر اگر ہم نے دیکھا کہ ہماری نیت خالص نہیں ہے ،تو ہمیں فریضہ اور تکلیف کوترک نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیںاپنی نیت کو خالص کرنےکی کوشش کرنی چاہئے۔اگرہماری تبلیغی سر گرمیوں کے عوض ہمیںکچھ پیسہ دیئے گئے تو یا ہم اسے نہ لیں یا اس میں سے تھوڑا بہت قبول کرلیں یااسے ضروری امور میں صرف کرنے کا فیصلہ کریں کہ اگر ہم نے کسی کواپنے سے محتاج ترپایا،تواس کی مدد کردیں گے۔اس قسم کے کام نفسانی خواہشات اورغیر الہی محرکات میں کمی واقع ہونے اور عمل کے خالص تر انجام پانے کاسبب بنتے ہیں۔

میرے ایک دوست Ù†Û’ نقل کیا ہے کہ وہ طالب علمی Ú©Û’ دوران اطراف تہران Ú©Û’ ایک شہر میںتبلیغ Ú©Û’ لئے گیا۔وہاں ایک محترم عالم دین تھے کہ لوگ جنھیں اچھی طرح پہچانتے تھے اور وہ لوگوں میںکافی اثر رسوخ رکھتے تھے۔مجھے اس شہر Ú©Û’ ا طراف میں واقع ایک گاؤں میں بھیج دیا گیا۔چونکہ میں تبلیغی کام میں تجربہ نہیں رکھتا تھااورپہلی مرتبہ تبلیغ پر گیا تھا،اس لئے عشرہ Ú©Û’ دوران میری مجلسوں کولوگوں Ù†Û’ پسند نہیں کیا او ر کوئی خاص آؤ بھگت بھی نہیں کی،آخر میں ایک مختصرنذرانہمجھے دیا گیا۔تبلیغ Ú©Û’ اختتام پرمیں اور دوسرے مبلغین اس عالم دین سے رخصت ہونے Ú©Û’ لئے ان Ú©Û’ پاس گئے۔اس عالم دین Ù†Û’ انتہائی فروتنی اور تواضع سے ہماری مہمان نوازی Ú©ÛŒ ،گفتگو ختم ہونے پر مذاق میں ہم سے کہا:دوستو!آوٴ ہم اپنی آنکھوں کوبند کر Ú©Û’ جو Ú©Ú†Ú¾ اس عشرہ میں بطور زندہ ہمیں ملاہے اسے ایک جگہ جمع کریں اور اس Ú©Û’ بعداسے آپس میں مساوی صورت میں تقسیم کریں !معلوم تھا کہ وہ عالم دین ایک مشہور Ùˆ معروف شخصیتتھے اور ان Ú©ÛŒ مجلسیں بھی موثر تھیں اور پیسے بھی انھیں کافی ملے تھے ۔وہ چونکہ جانتے تھے کہ ہمیں کوئی خاص پیسے نہیں ملے ہیں ،اور وہ اس طرح ہماری مددنہیں  کرناچاہتے تھے کہ جس سے ہماری شخصیت مجروح ہو ØŒ اس لئے مذاق میں ہم سے اس قسم کا تقاضا کیا۔ہم بھی تہہ دل سے خوش ہوئے،چونکہ انہوں Ù†Û’ مذاق میں ہم سے وہ درخواست Ú©ÛŒ تھی اس لئے ہمیں  برا بھی نہیںلگا Û” خلاصہ یہ کہ ہم Ù†Û’ اپنی آنکھیں بند کر Ú©Û’ پیسوں Ú©Ùˆ ایک جگہ جمع کیا ،جب پیسے افراد Ú©Û’ درمیان تقسیم ہوئے تو ہم Ù†Û’ دیکھا کہ ہم میں سے ہر ایک Ú©Ùˆ اپنی رقم Ú©Û’ کئی گنا پیسے ملے تھے !جی ہاں ،ایسے افراد گزرے ہیں اور موجود بھی ہیں جن میں مادی محر کات ضعیف ہیں یااس قسم Ú©Û’ کام سے ان محرکات Ú©Ùˆ ضعیف کرنا چاہتے ہیں۔

آخر کار انسان اپنی زندگی میں مشکلات اور ضرورتوں کا سامنا کرتا ہے ،خاص کر گرانی اورمہنگائی ،مادی رحجانات کو ہوا دیتے ہیں ،اب ان محر کات اور رحجانات میں قدرے کمی واقع ہونے کے لئے مناسب ہے کہ ہم نذر کریں اور ارادہ کریں کہ جو کچھ ہمیں بطور نذرانہ ملے گا اس میںایک حصہ اہم ایسے لوگوں کے حوالہ کریں گے جو ہم سے زیادہ محتاج ہیں، کیونکہ جس طرح ہم سے زیادہ مالدار بہت ہیں اسی طرح ہم سے زیادہ فقیر بھی بہت ہیں جو ہم سے زیادہ محتاج ہیں۔ہمیں کوشش کر نی چاہئے کہ جو کچھ ہمیں ملے اس میں سے کچھ حصہ اپنے سے محتاج ترلوگوں کو پہنچادیں ۔ہمیںکوشش کرنی چاہئے کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کریں،اس طرح دنیا سے ہماری وابستگی بھی کم ہوگی اور نیکی کاروں کی صفت بھی ہم میں پیدا ہوگی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next