مشرکين مکه سے پيغمبر اکرم صلی الله عليه و آله و سلم کی گفتگو



ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: خدا نے ان بتوں کی شکل و صورت والے مردوں میں حلول کیا ہے اور ہم ان بتوں کی پرستش اور ان پر توجہ اس وجہ سے کرتے ہیں تاکہ ان شکلوں کا احترام کرسکیں۔

ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: ہم نے ان بتوں کو پرہیزگار اور خدا کے مطیع بندوں کی شبیہ بنایا ہے، ہم خدا کی تعظیم اور اس کے احترام کی وجہ سے ان کی عبادت کرتے ہیں!

تیسرے گروپ نے کہا: جس وقت خداوندعالم نے جناب آدم کو خلق کیا، اور اپنے فرشتوں کو جناب آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا، لہٰذاہم (تمام انسان) اس بات کے سزاوار ہیں کہ جناب آدم کو سجدہ کریں اور چونکہ ہم اس زمانہ میں نہیں تھے، اس وجہ سے ان کو سجدہ کرنے سے محروم رہیں، آج ہم نے جناب آدم کی شبیہ بنائی ، اور خدا کا تقرب حاصل کرنے کے لئے اس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں تاکہ گزشتہ محرومیت کی تلافی کرسکیں، اور جس طرح آپ نے اپنے ہاتھوں سے (مسجدوں میں) محرابیں بنائی اور کعبہ کی طرف منھ کرکے سجدہ کرتے ہیں، کعبہ کے مقابل خدا کی تعظیم اور اس کے احترام کی وجہ سے سجدہ اور عبادت کرتے ہیں اسی طرح ہم بھی ان بتوں کے سامنے در حقیقت خدا کا احترام کرتے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تینوں گروہوں کی طرف رخ کرتے ہوئے فرمایا: تم سبھی لوگ حقیقت سے دور غلط اور منحرف راستہ پر ہو، اور پھر ایک ایک کا الگ الگ جواب دینے لگے:

پہلے گروہ کی طرف رخ کرکے فرمایا:

تم جو کہتے ہو کہ خدا نے ان بتوں کی شکلوں کے لوگوں میں حلول کررکھا ہے اس وجہ سے ہم نے ان بتوں کو انھیں مردوں کی شکل میں بنایا ہے اور ان کی پوجا کرتے ہیں، تم لوگوں نے اپنے اس بیان سے خدا کو مخلوقات کی طرح قرار دیا ہے اور اس کو محدود اور حادث مان لیا، کیا خداوندعالم کسی چیز میں حلول کرسکتاہے اور وہ چیز (جو کہ محدود ہے) خدا کو اپنے اندر سما لیتی ہے؟ لہٰذا کیا فرق ہے خدا اور دوسری چیزوں میں جو جسموں میں حلول کرتی ہیں جیسے رنگ، ذائقہ، بو، نرمی، سختی، سنگینی اور سبکی، اس بنیاد پر تم لوگ کس طرح کہتے ہو کہ جس جسم میں حلول ہوا ہو وہ تو حادث اور محدود ہے لیکن جو خدا اس میں واقع ہوا ہو وہ قدیم اور نامحدود ہے، جبکہ اس کے برعکس ہونا چاہئے یعنی احاطہ کرنے والا قدیم ہونا چاہئے اور احاطہ ہونے والا حادث ہونا چاہئے۔

اس کے علاوہ کس طرح ممکن ہے جو خداوندعالم ہمیشہ سے اور تمام موجودات سے پہلے مستقل اور غنی ہو، نیز محل سے پہلے موجود ہو ، اس کو محل کی کیا ضرورت ہے کہ خود کو اس محل میں قرار دے!۔

اور تمہارے اس عقیدہ کے پیش نظر کہ خدا نے موجودات میں حلول کر رکھا ہے ، تم نے خدا کو موجودات کی صفات کے مثل حادث اور محدود فرض کرلیا ہے، جس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا کا وجود قابل تغییر و زوال ہے، کیونکہ ہر حادث اور محدود چیز قابل تغییر اور زوال ہوتی ہے۔

اور اگر تم لوگ یہ کہو کہ کسی موجود میں حلول کرنا تغییر اور زوال کا سبب نہیں ہے، تو پھر بہت سے امور جیسے حرکت، سکون، مختلف رنگ، سیاہ و سفیداور سرخ وغیرہ کو بھی ناقابل تغییر اورناقابل زوال کے سمجھو، اس صورت میں تمہارے لئے یہ کہنا صحیح ہے کہ خدا کے وجود پر ہر طرح کے عوارض اور حالات پیدا ہوتے ہیں، جس کے نتیجہ میں خدا کو دوسرے صفات کی طرح محدود اور حادث سے توصیف کرو اور خدا کو مخلوقات کی شبیہ مانو۔

جب شکلوں میں خدا کے حلول کا عقیدہ بے بنیاد اور کھوکھلا ہوگیا، تو چونکہ بت پرستی کی بنیاد بھی اسی عقیدہ پر ہے تو پھر وہ بھی بے بنیاد اور باطل ہوجائے گی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next