مشرکين مکه سے پيغمبر اکرم صلی الله عليه و آله و سلم کی گفتگو



”اے محمد!ہم نے آپ جیسی مستدل گفتگو نہیں دیکھی ہے، ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے بھیجے ہوئے برحق پیغمبر ہیں“۔

۲۔ قریش کے سرداروں سے پیغمبر اکرم

 


[1] جناب عزیر علیہ السلام، جناب موسیٰ علیہ السلام کے بعد انبیائے بنی اسرائیل میں سے تھے ، جو بیت المقدس پر بخت النصر نامی حملہ میں اسیر کر لئے گئے اور شہر بابل (بغداد کے حدود میں) بھیج دئے گئے، جناب عزیر علیہ السلام تقریباًسو سال ”ہخامنشی بادشاہوں“ کے زمانہ میں بابل میں بنی اسرائیل کے لئے تبلیغ دین میں مشغول رہے ۔

یہاں تک کہ Û´ÛµÛ¸ سال قبل از میلاد (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) بنی اسرائیل Ú©Û’ ایک گروہ Ú©Û’ ساتھ یروشلم میں گئے جہاں پر بنی اسرائیلیوں میں توریت اور اس Ú©Û’ احکام Ú©Ùˆ بالکل بھلادیا تھا لیکن جناب عزیر علیہ السلام Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ دوبارہ زندہ کیا اور ان Ú©ÛŒ اصلاح کی، سر انجام Û´Û³Û° سال قبل از میلاد میں ان کا انتقال ہوا، ان Ú©Û’ انتقال Ú©Û’ بعد بنی اسرائیل Ù†Û’ نہ جانے کیا کیا کہا یہاں تک کہ انھیں ”خدا کا بیٹا“ بھی کہہ ڈالا!!Û”  

لیکن آج یہ عقیدہ بالکل ختم ہوگیا ہے اور اس کا ماننے والا کوئی نہیں ہے۔

[2] واضح عبارت میں یوں کہیں: دن رات کی جدائی کے پیش نظر پہلے مقدم ہونے والی چیز حادث ہے۔

[3]  یعنی ان کا ایک دوسرے کا محتاج ہونا ان Ú©Û’ حادث ہونے پر دلیل ہے۔

[4] پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مادّیوں سے مناظرہ کرتے ہوئے آرام آرام ،قدم بقدم کے طریقہ سے فائدہ اٹھایا اور درج ذیل چار چیزوں کی بنیاد پر ان کو مغلوب کیا:

۱۔ پہلے اس بنیاد پر کہ ”نہ ملنا ،نہ ہونے پر دلیل نہیں ہے“، حدوث کا مشاہدہ نہ کرنا اس کے ازلیت پر دلیل نہیں ہے، جیسا کہ فناء کا مشاہدہ نہ کرنا اس کے ابدی ہونے پر دلیل نہیں ہے۔؟

۲۔ ممکن ہے کہ ہم حدوث فعلی کے ذریعہ حدوث غائب پر استدلال کریں جو حدوث فعلی کی قسم سے ہے ، جیسے شب و روز کا حدوث فعلی گزشتہ اور آئندہ میں بھی اس کے حدوث کی حکایت کرتا ہے۔

۳۔ حدوث کا حکم محدود ہوتاہے اگرچہ کے اس کے افراد بہت زیادہ ہوں۔

۴۔ اس دنیا کے تمام موجودات کے اجزاء ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں جو ان کے حادث ہونے پر دلیل ہے، کیونکہ قدیم چیز کا کسی چیز کا محتاج ہونامحال ہے۔

[5] احتجاج طبرسی، ج۱، ص۱۶ تا ۲۴۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13