مشرکين مکه سے پيغمبر اکرم صلی الله عليه و آله و سلم کی گفتگو



اس کے علاوہ اگر تمہاری دلیل یہی ہے کہ چونکہ جناب ابراہیم( علیہ السلام) خلیل خدا ہیں لہٰذا وہ خدا کے بیٹے ہیں، تو اس بنیاد پر تمہیں یہ بھی کہنا چاہئے کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) بھی خدا کے بیٹے ہیں، بلکہ جس طرح میں نے یہودی گروہ سے کہا، اگر یہ طے ہو کہ لوگوں کے مقام و عظمت کی وجہ سے یہ نسبتیں صحیح ہوں تو کہنا چاہئے کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) خدا کے باپ، استاد، چچا یا آقا ہیں۔۔۔ جبکہ تم لوگ کبھی بھی ایسا نہیں کہتے۔

عیسائیوں میں سے ایک شخص نے کہا: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہونے والی کتاب انجیل کے حوالہ سے بیان ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا: ”میں اپنے اور تمہارے باپ کی طرف جارہا ہوں“، لہٰذا اس جملہ کی بنا پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے خود کو خدا کا بیٹا قرار دیا ہے!

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم :  اگر تم لوگ کتاب انجیل Ú©Ùˆ قبول کرتے ہو تو پھر اس جملہ Ú©ÛŒ بنا پر تم لوگ بھی خدا Ú©Û’ بیٹے ہو، کیونکہ جناب عیسیٰ کہتے ہیں: ”میں اپنے اور تمہارے باپ Ú©ÛŒ طرف جارہا ہوں“، اس جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ میں بھی خدا کا بیٹا ہوںاور تم بھی۔

دوسری طرف یہ عبارت تمہاری گزشتہ کہی ہوئی بات (یعنی چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خاص امتیازات، شرافت اور احترام رکھتے تھے اسی وجہ سے خداوندعالم نے ان کو اپنا بیٹا قرار دیا ہے) کو باطل اور مردود قرار دیتی ہے، کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس جملہ میں صرف خود ہی کو خدا کا بیٹا قرار نہیں دیتے بلکہ سبھی کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔

اس بنا پر بیٹا ہونے کا معیار حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاص امتیازات (اور معجزات میں سے) نہیں ہے، کیونکہ دوسرے لوگوں میں اگرچہ یہ امتیازات نہیں ہیں لیکن خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے نکلے ہوئے جملہ کی بنا پر خدا کے بیٹے ہیں، لہٰذا ہر مومن اور خدا پرست انسان کے لئے کہا جاسکتا ہے: وہ خدا کا بیٹا ہے، تم لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قول کو نقل کرتے ہو لیکن اس کے برخلاف گفتگو کرتے ہو۔

کیوں تم لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) Ú©ÛŒ گفتگو میں بیان ہونے والے ”باپ بیٹے“ Ú©Û’ لفظ Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ غیر معنی میں استعمال کرتے ہو، شاید جناب عیسیٰ (علیہ السلام) Ú©ÛŒ مراد اس جملہ ”میں اپنے اور تمہارے باپ Ú©ÛŒ طرف جارہا ہوں“،  سے مراد اس Ú©Û’ حقیقی معنی ہوں یعنی میں حضرت آدم Ùˆ نوح (علیہما السلام) Ú©ÛŒ طرف جارہا ہوں جو ہمارے سب Ú©Û’ باپ ہیں، اور خداوندعالم مجھے ان Ú©Û’ پاس Ù„Û’ جارہا ہے، جناب آدم Ùˆ نوح ہمارے سب Ú©Û’ باپ ہیں، اس بنا پر تم کیوں اس جملہ Ú©Û’ ظاہری اور حقیقی معنی سے دوری کرتے ہو اور اس سے دوسرے معنی مرادلیتے ہو؟!

عیسائی گروہ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مستدل گفتگو سے اس قدر مرعوب ہواکہ کہنے لگے: ہم نے آج تک کسی کو ایسا نہیں دیکھا کہ اس ماہرانہ انداز میں اس طرح بحث و گفتگو کرے جیسا کہ آپ نے کی ہے، ہمیں اس بارے میں غور و فکر کی فرصت دیں۔

۳۔ منکرین خدا سے مناظرہ

مادّیوں اور منکرین خدا کی باری آئی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی طرف رخ کرتے ہوئے فرمایا: تم لوگ اس بات کا عقیدہ رکھتے ہو کہ اس موجودات عالم کا کوئی آغاز نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

منکرین خدا:  جی ہاں، یہی ہمارا عقیدہ ہے، کیونکہ ہم Ù†Û’ اس دنیا Ú©Û’ آغاز اور حدوث Ú©Ùˆ نہیں دیکھا، اور اسی طرح اس Ú©Û’ لئے فنا اور انتہا کا مشاہدہ نہیں کیا، لہٰذا ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم :  میں بھی آپ لوگوں سے سوال کرتا ہوں کہ کیا تم Ù†Û’ موجودات Ú©Û’ قدیم، ہمیشگی اور ابدی ہونے Ú©Ùˆ دیکھا ہے؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next