مشرکين مکه سے پيغمبر اکرم صلی الله عليه و آله و سلم کی گفتگو



اور اگر تیسری بات کے قائل ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جناب عیسیٰ (علیہ السلام) دوسرے بندوں کی طرح حادث ہیں لیکن وہ خدا کے ممتاز اور لائق احترام بندہ ہیں، تو اس صورت میں بھی خداوندکا (جو قدیم ہے) جناب عیسیٰ (علیہ السلام) سے متحد اور برابر ہونا قابل قبول نہیں ہے۔

عیسائی گروہ:   چونکہ خداوندعالم Ù†Û’ حضرت عیسیٰ مسیح (علیہ السلام) Ú©Ùˆ خاص امتیازات سے نوازا ہے، عجیب Ùˆ غریب معجزات اور دوسری چیزیں انھیں دی ہیں، اسی وجہ سے ان Ú©Ùˆ اپنا بیٹا قرار دیا ہے، اور یہ خدا کا بیٹا ہونا شرافت اور احترام Ú©ÛŒ وجہ سے ہے!

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم :   ”بعینہ یہی مطلب یہودیوں سے گفتگو Ú©Û’ درمیان بیان ہوا ہے اور تم لوگوں Ù†Û’ سنا کہ اگر یہ Ø·Û’ ہو کہ خداوندعالم Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ امتیاز اور (معجزات) Ú©ÛŒ بنا پر اپنا بیٹا قرار دیا ہو تو پھر جو شخص جناب عیسیٰ (علیہ السلام) سے بلند تر یا ان Ú©Û’ برابر ہو تو پھر اس Ú©Ùˆ اپنا باپ، یا استاد یا اپنا چچا قرار دے۔۔۔“۔

عیسائی گروہ یہ اعتراض سن کر لاجواب ہوگیا، نزدیک تھا کہ ان سے بحث و گفتگو ختم ہوجائے، لیکن ان میں سے ایک شخص نے کہا:

کیا آپ جناب ابراہیم( علیہ السلام) کو ”خلیل خدا“ (یعنی دوست خدا) نہیں مانتے؟“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم :  جی ہاں، مانتے ہیں۔

عیسائی: اسی بنیاد پر ہم جناب عیسیٰ (علیہ السلام) کو ”خدا کا بیٹا“ مانتے ہیں، پھر کیوں آپ ہم کو اس عقیدہ سے روکتے ہیں؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم :  یہ دونوں لقب آپس میں بہت فرق رکھتے ہیں،لفظ ”خلیل“ دراصل لغت میں ”خَلّہ“ (بروزن ذرّة) سے ہے جس Ú©Û’ معنی فقر Ùˆ نیاز اور ضرورت Ú©Û’ ہیں، کیونکہ جناب ابراہیم( علیہ السلام) بی نہایت خدا Ú©ÛŒ طرف متوجہ تھے، اور عفت نفس Ú©Û’ ساتھ، غیر سے بے نیاز ہوکر صرف خداوندعالم Ú©ÛŒ بارگاہ کا فقیر اور نیاز مند سمجھتے تھے، اسی وجہ سے خداوندعالم Ù†Û’ جناب ابراہیم (علیہ السلام) Ú©Ùˆ اپنا ”خلیل“ قرار دیا، تم لوگ جناب ابراہیم( علیہ السلام) Ú©Ùˆ Ø¢Ú¯ میں ڈالنے کا واقعہ یاد کرو:

جس وقت (نمرود کے حکم سے) ان کو منجنیق میں رکھا تاکہ ان کو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی آگ کے اندر ڈالا جائے، اس وقت جناب جبرئیل خدا کی طرف سے آئے اور فضا میں ان سے ملاقات کی اور ان سے عرض کی کہ میں خدا کی طرف سے آپ کی مدد کرنے کے لئے آیا ہوں، جناب ابراہیم( علیہ السلام) نے ان سے کہا: مجھے غیر خدا کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مجھے اس کی مدد کافی ہے، وہ بہترین محافظ اور مددگار ہے، اسی وجہ سے خداوندعالم نے جناب ابراہیم( علیہ السلام) کو اپنا ”خلیل“ قرار دیا، خلیل یعنی خداوندعالم کا محتاج اور ضرورت مند، اور خلق خدا سے بے نیاز۔

اور اگر لفظ خلیل کو ”خِلّہ“ (بروزن پِلّہ) سے مانیں جس کے معنی ”معانی کی تحقیق اور خلقت وحقائق کے اسرار و رموز پر توجہ کرنا ہے“، اس صورت میں بھی جناب ابراہیم( علیہ السلام) خلیل ہیں یعنی وہ خلقت اور حقائق کے اسرار اور لطائف سے آگاہ تھے، اور یہ معنی خالق و مخلوق میں شباہت کی باعث نہیں ہوتی، اس بنا پر اگر جناب ابراہیم( علیہ السلام) صرف خدا کے محتاج نہ ہوتے، اور اسرار و رموز سے آگاہ نہ ہوتے تو خلیل بھی نہ ہوتے، لیکن باپ بیٹے کے درمیان پیدائشی حوالہ سے ذاتی رابطہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر باپ اپنے بیٹے سے قطع تعلق کرلے تو بھی وہ اس کا بیٹا ہے اور باپ بیٹے کا رشتہ باقی رہتا ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next