فلسفہٴ روزہ



روزہ Ú©Û’ فلسفہ Ùˆ اسرار میں  سب سے عمیق فلسفہ Ùˆ سرّ اپنے معبود اور معشوق سے ملاقات کرنا اور ھمکلام ھونا Ú¾Û’ Û” یہ انسانیت کا بلندترین مقام اور ایک انسان Ú©Û’ لئے بھترین لذّت Ú¾Û’Û” اس لذّت تک پھونچنے Ú©Û’ لئے اس Ù†Û’ روزہ Ú©Û’ ذریعے اپنے آپ Ú©Ùˆ تمام حیوانی اور شھوانی لذّتوں  سے بلند کیا Ú¾Û’ Û” روزہ رکہ کر اب وہ Ø°Ú¾Ù†ÛŒ Ùˆ تخیّلی لذّتوں  سے آزاد Ú¾Ùˆ چکا Ú¾Û’ اب اسے غیبت کرنے یا سننے میں  لذّت Ú©Û’ بجائے کرب واذیت کا احساس ھوتا Ú¾Û’Û” اب اس Ù†Û’ اپنی نظر Ú©ÛŒ تطھیر کر Ù„ÛŒ ھے،اب وہ آب Ùˆ غذا Ú©ÛŒ لذّتوں  سے بلند Ú¾Ùˆ چکاھے اس لئے کہ اب وہ وصال محبوب Ú©ÛŒ لذّت سے آشنا Ú¾Ùˆ چکا Ú¾Û’Û”

روایت میں  Ú¾Û’ ” لِلصَّائِمِ فَرحَتَان حِیْنَ ÛŒ-َفْطُرُوَحِینَ یَلْقٖی رَبَّہ عزّ Ùˆ جلّ“(Û³Û¶) روزہ دار کودو مواقع پر فرحت Ùˆ لذّت کا احساس ھوتا Ú¾Û’ ۔ایک افطار Ú©Û’ وقت کہ خدا Ù†Û’ توفیق دی اورروزہ مکمّل Ú¾Ùˆ گیا،مریض نھیں  ھوا ،سفر در پیش نھیں  آیا، شیطان Ù†Û’ مجھ پر غلبہ نھیں  کیااور خدا Ù†Û’ کسی دوسرے امر میں  مشغول نھیں  کیا اس لئے کہ خدا ھر ایک Ú©Ùˆ اپنی بارگاہ میں  آنے کا موقع نھیں  دیتا، وہ جنھیں  اپنی بارگاہ Ú©Û’ لائق نھیں  سمجھتا انھیں  دیگر امور میں  مشغول کر دیتا Ú¾Û’ ØŒ کبھی سختیوں  اور مصیبتوں  میں  مبتلا کر دیتا Ú¾Û’ توکبھی کثرت سے نعمتیں  دے کر مشغول کر دیتا Ú¾Û’Û”

روزہ دار Ú©ÛŒ خوشی کا دوسرا موقع اپنے پروردگار Ú©ÛŒ ملاقات Ú©Û’ وقت Ú¾Û’ جب وہ خدا سے ھمکلام ھوتا Ú¾Û’Û” یہ ایک انسان Ú©Û’ لئے سب سے بڑی نعمت ھے۔روز قیامت ایک گروہ Ú©Û’ لئے سب سے بڑا عذاب یہ Ú¾Ùˆ گا کہ ”لَا یُکَلِّمُھُمُ اللہ یَومَ الْقِیَامَةِ“(Û³Û·) خدا ان سے کلام نھیں  کرے گا۔ روز ہ دار کبھی قرآن پڑھتا Ú¾Û’ تاکہ خدا اس سے ھمکلام ھو، کبھی دعا کرتا Ú¾Û’ تاکہ وہ خدا سے ھمکلام ھواور کبھی وہ Ú©Ú†Ú¾ بھی نھیں  کرتا،زبان بھی خاموش ھوتی Ú¾Û’ لیکن پھر بھی خدا سے ھمکلام ھوتا Ú¾Û’ کیونکہ خدا سے ھمکلام ھونے Ú©Û’ لئے زبان اور آواز Ú©ÛŒ ضرورت نھیں  Ú¾Û’Û”

اگر انسان اس نکتے Ú©Ùˆ اچھی طرح درک کر Ù„Û’ کہ قرآن کلام خدا Ú¾Û’ اور وہ جب قرآن پڑھتا Ú¾Û’ خدا اس سے محو کلام ھوتا Ú¾Û’ تو پھر وہ قرآن Ú©Ùˆ فقط ثواب Ú©Û’ لئے نھیں  Ù¾Ú‘Ú¾Û’ گابلکہ قرآنی آیات Ú©Ùˆ اپنی زندگی میں  ڈھالنے Ú©ÛŒ کوشش کرے گا کیونکہ ایک انسان جب اپنے محبوب سے گفتگو کر رھا ھوتا Ú¾Û’ تو وہ اپنے پورے وجود سے اسکی باتوں  Ú©Ùˆ سننے ØŒ سمجھنے اور اپنانے Ú©ÛŒ کوشش کرتا Ú¾Û’ ۔انسان اور قرآن کارابطہ اتناعمیق Ú¾Û’ کہ امام سجّاد علیہ السلام  فرماتے ھیں :”لَو مَاتَ مَنْ بَیْنَ الْمَشْرِقِ ÙˆÙŽ الْمَغْرِبِ لَمَّا اسْتَوحَشْتُ بَعْدَ اَن یَکُون القُرَآنُ مَعی“(Û³Û¸)اگر مشرق Ùˆ مغرب میں  رھنے والے تمام افراد مر جائیں  اور اس دنیا میں  میں  تنھا رہ جاؤں اور قرآن میرے ساتھ Ú¾Ùˆ تو میں  ھرگز وحشت کا احساس نھیں  کروں  گا۔“

اسی طرح انسان اگر اس نکتہ Ú©Ùˆ بھی درک کر Ù„Û’ کہ دعا کرتے وقت وہ خدا سے ھمکلام ھوتا Ú¾Û’ اور خدا بھت قریب سے اسکی دعاؤں  Ú©Ùˆ سن رھا Ú¾Û’ ”وَاذَا سَئَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیْبٌ “(Û³Û¹) تو پھر وہ خدا Ú©ÛŒ بارگاہ میں  معمولی اور پست چیزیں  نھیں  طلب کرے گا بلکہ وہ چیزیں  طلب کرے گا جو مقام انسانیت Ú©Û’ شایان شان ھیں  اور یہ بھی ممکن Ú¾Û’ کہ وہ Ú©Ú†Ú¾ طلب کرنے Ú©Û’ بجائے صرف اپنے معبود سے ھمکلام ھونے Ú©Û’ لئے دعا کر رھا ھواور اگر وہ Ú©Ú†Ú¾ طلب کر رھا Ú¾Ùˆ تو خدا سے خدا Ú¾ÛŒ Ú©Ùˆ طلب کر رھا ھو،اس لئے کہ اگر انسان کوخدا مل جائے تو Ú©Ú†Ú¾ نہ ھوتے ھوئے بھی اسے سب Ú©Ú†Ú¾ مل گیا اور اگر خدا نہ ملے تو سب Ú©Ú†Ú¾ پا کر بھی اسے Ú©Ú†Ú¾ نھیں  ملا۔

” مَا ذَا وَجَدَ مَنْ فَقَدَکَ وَ مَاالَّذِی فَقَدَ مَنْ وَجَدَکَ۔“

پروردگارا!اس نے کیا پایا جس نے تجھے کھو دیا اور اس نے کیا کھویا جس نے تجھے پا لیا۔

                                                                 امام حسین علیہ السّلام (دعائے عرفہ)

حوالے:

(۱)نھج البلاغہ:کلمات قصار:۴۷



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next