شيعوں کا علمي تفکر



قرآن مجيد نے دونوں طريقوں کو استعمال کيا ھے اور ان دونوں طريقوں کے بارے ميں قرآن مجيد ميں بھت سي آيات موجود ھيں ـ سب سے پھلے تو ( قرآن مجيد ) کائنات کے کليات اور ھر دو جھاں کے مجموعي نظام اور ايسے ھي خاص نظاموں مثلا آسمان ، زمين ، چاند ، سورج ، ستاروں ، دن رات ، نباتات ، حيوانات اور انسانوں کے متعلق آزاد تفکر کي دعوت ديتا ھے اور آزاد عقل تحقيق کي بھترين الفاظ ميں تعريف و توصيف کرتا ھے اور پھر عقلي ، جدلي تفکر جس کو عام طور پر ” بحث کلامي “ کھا جاتا ھے ، کے لئے حکم صادر کرتا ھے بشرطيکہ يہ امر بھترين طريقے سے ( يعني بغير کسي ضد بازي کے اچھے اخلاق کے ساتھ حق کا اظھار ) انجام پائے ، جيسا کہ فرماتا ھے : ” ادع الي سبيل ربک بالحکمة و الموعظة الحسنة و جاد لھم بالتي ھي احسن “ (سورہُ نحل / 125) ” ( اے رسول ) تم (لوگوں کو) اپنے پروردگار کي راہ پر حکمت اور اچھي اچھي نصيحت کے ذريعے بلاؤ اور بحث و مباحثہ کرو بھي تو اس طريقے سے جو ( لوگوں کے نزديک ) سب سے اچھا ھو ـ

اسلام کے فلسفي اور کلامي تفکر ميں شيعوں کي پيش قدمي

يہ تو مکمل طور پر واضح ھے کہ شيعہ اقليت ، سني اکثريت سے ابتدائے اسلام ميں ھي جدا اور الگ ھو گئي تھي اور ھميشہ اپنے مخالفين کے بارے ميں خاص نظريات رکھتي تھي اور اپنے مخالف ( اھلسنت ) کے ساتھ دلائل کے ساتھ بحث کرتي تھي ـ يہ ٹھيک ھے کہ دلائل کے ساتھ بحث کرنا دو طرفہ ھے اور طرفين اس ميں برابر کے شريک ھوتے ھيں ليکن ھميشہ شيعہ حملہ کرتے تھے اور دوسرے دفاع کرتے تھے اور جو شخص حملے ميں پيش قدمي کرتا ھے وہ مجبور ھے کہ کافي ساز و سامان سے ليس ھو ـ

پھر وہ ترقي جو تدريجا کلامي بحثوں کو نصيب ھوئي اور دوسري صدي ھجري اور تيسري صدي ھجري کے آغاز ميں معتزلي مذھب کے شروع ھو جانے سے يہ ترقي اوج پر پھونچ گئي اور شيعہ محققين اور علماء کتب اھلبيت عليھم السلام کے شاگردوں ميں تھے ، بلکہ ان متکلمين ( ماھرين علم کلام ) کا سلسلہ بھي اشاعرہ اور معتزلہ سے ھوتا ھوا شيعوں کے پھلے امام ، حضرت علي عليہ السلام تک پھونچتا ھے ـ

ليکن وہ لوگ جو پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے اصحاب کي کتابوں سے پوري طرح واقفيت رکھتے ھيں وہ يہ بخوبي جانتے ھيں کہ صحابہ کي ان تمام کتابوں ميں ( جن کي تعداد تقريباً بارہ ھزار تک پھونچتي ھے ) حتيٰ کہ ايک کتاب بھي فلسفي تفکر کے بارے ميں نھيں لکھي گئي ھے ، اور صرف حضرت علي عليہ السلام ھي تھے جن کے دلچسپ اور دلکش بيانات ” علم الھيات “ کے عميق ترين فلسفي تفکر پر مشتمل ھيں ـ

صحابہ اور علمائے تابعين جو اصلي صحابہ کے بعد آتے ھيں اور آخر کار عربي لوگ اس زمانے ميں آزاد فلسفي تفکر سے واقفيت اور آشنائي نھيں رکھتے تھے لھذا پھلي صدي کے دانش مندوں اور علماء کے اقوال و بيانات ميں فلسفي تحقيق کا کوئي نمونہ ديکھنے ميں نھيں آيا ـ صرف شيعہ اماموں کے پُر مغز بيانات اورخصوصاً امام اول اور امام ھشتم کے بيکراں علمي خزانے فلسفي افکار پر مشتمل ھيں اور انھوں نے ھي اپنے شاگردوں اور ماننے والوں کي ايک اچھي تعداد و جماعت کو اس طرز فکر سے آشنا کيا تھا ـ

عربي لوگ فلسفي طرز فکر سے نا واقف تھے ، يھاں تک کہ دوسري صدي ھجري کے آغاز ميں بعض فلسفے کي کتابوں کا ترجمہ يوناني زبان سے عربي زبان ميں کيا گيا تھا ـ اس کے بعد تيسري صدي ھجري کے اوائل ميں يوناني ، سرياني اور دوسري زبانوں سے بھت زيادہ کتابيں عربي زبان ميں ترجمہ ھو گئيں ، اس طرح فلسفي طرز تفکر عام لوگوں کي دسترس ميں آگيا ، مگر پھر بھي اکثر فقھا ء اور متکلمين ( ماھرين علم کلام ) فلسفہ اور دوسرے تمام عقلي علوم کي طرف ، جو تازہ وارد مھمانوں کي حيثيت رکھتے تھے ، زيادہ توجہ نھيں ديا کرتے تھے ، اور يہ مخالفت شروع شروع ميں اس لئے زيادہ موثر واقع نہ ھوئي تھي کيونکہ حکومت ِوقت ان علوم کي حمايت کيا کرتي تھي ، ليکن تھوڑے ھي عرصے بعد حالات بالکل تبديل ھو گئے اور فلسفے کي کتابوں کے مطالعے کي سخت مخالفت اور ممانعت کے ساتھ ساتھ فلسفے کي تمام کتابوں کو سمندر ميں پھينک ديا گيا اور رسائل اخوان الصفا جو مصنفين کي ايک گمنام جماعت کے ذھن کي تراوش ھے ابھي تک اس زمانے کي ياد گار باقي ھے ، يہ رسائل اس بات کي گواھي اور شھادت ديتے ھيں کہ اس زمانے ميں کيسے پريشان کن اور آشفتہ حالات تھے، اس زمانے کے بعد چوتھي صدي ھجري کے آغاز ميں فلسفہ ، ابو نصر قارابي کے ذريعے دوبارہ زندہ ھو گيا ـ اور پانچويں صدي ھجري کے شروع ميں مشھور فلسفي دانشور بو علي سينا کي کوششوں سے اس علم کي توسيع اور تکميل ھوئي ، چھٹي صدي ھجري ميں بھي شيخ شھاب الدين سھروردي نے فلسفہ اشراق کو پاک کيا ـ اور اسي جرم کي وجہ سے ھي سلطان صلاح الدين ايوبي کے ايماء پر اس کو شھيد کر ديا گيا تھا ـ اس کے بعد بھي اکثر لوگوں کے درميان فلسفہ کي کھاني تقريباً ختم ھو گئي اور کوئي مشھور فلسفي پيدا نہ ھوا سوائے اس کے کہ ساتويں صدي ھجري ميں اندلس ميں جو اسلامي ممالک ميں شمارھوتاتھا ، ابن رشد اندلسي پيدا ھوئے جنھوں نے فلسفے کو پاک و پاکيزہ کرنے کي کوشش کي ـ ( مندرجہ بالا مطالب اخبار الحکماء اور وفيات ابن خلکان اور دوسري ترجمہ کي کتابوں سے اخذ کئے گئے ھيں )

فلسفہ اور دوسرے تمام نقلي علوم ميں شيعوں کا کردار

شيعہ مذھب اور شيعہ دانشور جيسا کہ شروع سے ھي فلسفي تفکر کي پيدائش ميں ايک اھم عنصر رھے ھيں ، اس قسم کے تفکر کي پيشرفت اور علوم نقلي کي ترويج ميں بھي اھم رکن تھے اور ان علوم کي ترقي کے لئے ھميشہ کوشش کيا کرتے تھے کيونکہ اگر چہ ابن رشد کي وفات سے اھلسنت کے اکثر لوگوں ميں فلسفہ ختم ھو گيا تھا مگر شيعوں کے درميان ختم نھيں ھوا تھا ـ اس کے تھوڑے عرصے بعد بعض مشھور فلسفہ دان مثلاً خواجہ نصير الدين طوسي ، مير داماد اور صدر المتاھلين پيدا ھوئے جو يکے بعد ديگرے فلسفہ کي تعليم اور تحرير کے لئے بھت زيادہ کوشش کرتے رھے ھيں ـ

اس طرح تمام عقلي علوم ميں بعض دانشور مثلاً خواجہ نصير الدين طوسي اور بير جندي وغيرہ پيدا ھوئے ـ

يہ سب علوم اور خصوصاً فلسفہُ الٰھي شيعوں کي انتھک کوششوں کي وجہ سے بھت زيادہ ترقي کر گيا جيسا کہ خواجہ نصير الدين طوسي ، شمس الدين ترکہ ، ميرداماد اور صدر المتاھلين کي کتابوں کے مطالعے اورگزشتہ دانشمندوں کي کتب کے ساتھ مقابلہ کرنے سے واضح ھو جاتا ھے ـ

شيعوں ميں فلسفہ کيوں باقي رہ گيا ؟

کيونکہ شيعوں ميں فلسفي اور عقلي تفکر کي پيدائش ميں اھم ترين اور موثر ترين عنصر علمي ذخائر اور خزانے تھے ـ اور يہ تفکر شيعوں کے ذريعے سے ھي دوسروں کے درميان پيدا ھوا جو شيعوں کے اماموں اور پيشواؤں سے يادگار کے طور پر باقي رہ گيا تھا ـ اس طرز تفکر کي بقاء ميں اھم اور موثر عنصر شيعوں کے درميان وہ علمي ذخائر ھيں جن کو شيعہ احترام اور عزت کي نگاہ سے ديکھتے ھيں ، اور اس مطلب کي وضاحت کے لئے کافي ھے کہ اھلبيت عليھم السلام کے علمي ذخائر کا فلسفے کي کتابوں کے ساتھ مقابلہ کريں جو کہ ھر زمانے ميں لکھي گئي ھيں ، کيونکہ اس طرح ھميں صاف طور پر نظر آجائے گا کہ دن بدن فلسفہ مذکورہ علمي ذخائر کے بھت نزديک آتا جا رھا تھا ـ يھاں تک کہ گيارھويں صدي ھجري ميں تقريباً ان دونوں ( اھلبيت عليھم السلام کي علمي کتابوں اور فلسفہ کي کتابوں ) نے مطابقت پيدا کر لي ھے اور ان کے درميان سوائے تعبير اور تشريح کے کوئي فاصلہ نہ رھا ـ



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next