شيعوں کا علمي تفکر



پس معلوم اور واضح ھے کہ اگر پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے گفتار و اعمال اور حتيٰ کہ آپ کي خاموشي اور دستخط ھمارے لئے قرآن کي طرح حجت اور دليل نہ ھوتے تو مذکورہ مفھوم اور مطلب بھي ٹھيک نہ ھوتا ، پس پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کا بيان ان لوگوں کے لئے جنھوں نے خود آپ سے سنا يا قابل اعتماد ذرائع سے ان تک پھونچا ھے ، لازم الاتباع ھے ( يعني اس بيان کي اطاعت ، پيروي اور پابندي لازمي ھے ) اور اسي طرح آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے يہ بيانات قطعي تواتر احاديث کي صور ت ميں ھم تک پھونچے ھيں ، يعني آپ کے اھلبيت عليھم السلام کے بيانات بھي پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے بيانات کے بعد قابل اعتماد اور معتبر ھيں اور اھلبيت عليھم السلام علمي رھبري رکھتے ھيں کيونکہ وہ اسلام معارف اور احکام کے بيان ميں ھرگز خطا اور غلطي نھيں کرتے ، لھذا ان کے بيانات خواہ وہ زباني ھوں يا لکھے ھوئے ھوں ( البتہ قابل اعتماد ذرائع سے ) حجت ، دليل اور برھان ھيں ـ

اس بيان سے واضح ھو جاتا ھے کہ ظواھر ديني جو اسلامي تفکر ميں ايک سند اور دستاويز ھے دو اقسام پر مشتمل ھيں ” کتاب اور سنت “ کتاب سے مراد قرآني آيات کے ظاھري معني ھيں اور سنت سے مراد پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم اور اھلبيت عليھم السلام کي احاديث ھيں جو ھم تک صحيح ذرائع سے پھونچي ھيں ـ

صحابہ کي احاديث

ليکن وہ احاديث جو صحابہ کے ذريعے لکھي گئي يا نقل ھوئي ھيں ، اگر وہ پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے قول و فعل کے مطابق ھوں اور اھلبيت عليھم السلام سے روايت شدہ احاديث کے بھي مخالف نہ ھوں تو قابل قبول ھيں اور اگر خود صحابي کي نظر اور رائے کي مطابق ھوں تو وہ حجت و برھان نہ ھوں گي ( قابل قبول نہ ھوں گي ) اور صحابہ کا حکم بھي دوسرے تمام مسلمانوں کے برابر اور مانند ھے ـ خود اصحاب رسول صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم آپس ميں ايک دوسرے کے ساتھ ايک عام مسلمان کي طرح سلوک کيا کرتے تھے ـ

کتاب اور سنت کے بارے ميں دوبارہ بحث

کتاب خدا ( قرآن مجيد ) ھر قسم کے اسلامي تفکر کا بنيادي مآخذ ھے ، اور يہ قرآن کريم ھي ھے جو دوسرے تمام ديني مآخذ کے ثبوت کو اعتبار بخشتا ھے اور ان کے معتبر ھونے کي سند ديتا ھے يھي وجہ ھے کہ قرآن مجيد سب کے لئے قابل فھم ھے ـ

اس کے علاوہ خود قرآن کريم اپنے آپ کو ” نور “ اور ھر چيز کو واضح کرنے والا بتاتا ھے اورچيلنج کرتے ھوئے لوگوں سے درخواست کرتا ھے کہ قرآني آيات ميں غور و خوض اور فکر کريں کہ اس کي آيات ميں کسي قسم کا اختلاف اور تضاد موجود نھيں ھے اور اگر نھيں مانتے تو اس کي مانند کتاب لکہ کر لائيں اور اس کے ساتھ مقابلہ و معارضہ کريں ـ واضح رھے کہ اگر قرآن مجيد سب لوگوں کے لئے قابل فھم نہ ھوتا تو اس قسم کي حقانيت کے کوئي معني ھي نہ ھوتے ـ

البتہ ھرگز يوں نھيں سمجھنا چاھئے کہ قرآن مجيد جو خود بخود قابل فھم ھے اور گزشتہ مطلب کے منافي ھے جس ميں کھا گيا ھے کہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم اور آئمہ اھلبيت عليھم السلام اسلامي معارف اور علوم ميں علمي مراجع (ديني اورعلمي رھبر ) ھيں اور وہ خود در حقيقت قرآن کريم کے مضامين ميں سے ھيں کيونکہ بعض معارف اور علوم جن کو شريعت کے احکام اور قوانين کھا جاتا ھے ، قرآن مجيد ان کو مجموعي اور کلي طور پر بيان کرتا ھے ليکن ان کي تفصيلات کو جاننے کے لئے مانند نماز ، روزہ وغيرہ اور اسي طرح لين دين اور دوسري عبادات وغيرہ سنت پيغمبر صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم اور اھلبيت عليھم السلام کي احاديث کي طرف رجوع کرنے سے واضح ھوتے ھيں اور يہ امور و احکام انھيں پر موقوف ھيں ـ

اسلام کا دوسرا حصہ جو اعتقادي اور اخلاقي تعليمات اور اسي طرح معارف اسلامي پر مشتمل ھے اگر چہ ان کے مضامين اور تفصيلات عام افراد کے لئے قابل فھم ھيں ليکن ان کے معاني سمجھنے کے لئے اھلبيت عليھم السلام کي روش اختيار کرني چاھئے ـ اسي طرح ھر قرآني آيات کو اس کي دوسري آيات کے ساتھ ملا کر معني ، توضيح اور تفسير کرني چاھ+ئے نہ کہ اپنے نظريئے اور خيالات کے مطابق جيسا کہ ھمارے زمانے ميں يہ رسم اور عادت عام ھو چکي ھے اور ھم بھي اس طريقے سے مانوس ھو چکے ھيں ـ حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں : ” قرآن مجيد کي بعض آيات ، بعض دوسري آيات کے ذريعے واضح ھوتي ھيں اور معني ديتي ھيں ، اور اس کي بعض آيات بعض دوسري آيات کے متعلق گواھي ديتي ھيں اور ان کي تصديق کرتي ھيں “( نھج البلاغہ خطبہ 231) اور پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم فرماتے ھيں :” قرآن مجيد کے بعض حصے بعض دوسرے حصوں کي تصديق کرتے ھيں “( در المنثور ج /2 ص / 6 ) اور پھر فرماتے ھيں :” جو شخص قرآن مجيد کي تفسير صرف اپنے نظريئے اور اپني رائے کے مطابق کرے گا وہ اپنے لئے جھنم ميں ٹھکانہ بنائے گا “( تفسير صافي ص / 8 ـ بحار الانوار ج /19 ص / 28 )

قرآن سے قرآن کي تفسير کے لئے ايک بھت ھي سادہ سي مثال وہ ھے جو خدا تعاليٰ قوم لوط کے عذاب کي داستان ميں ايک جگہ فرماتا ھے :” ھم ان پر بري بارش کريں گے “ ( سورہ ٴ شعراء /173 ) اور ايک دوسري جگہ اسي لفظ کو ايک دوسرے لفظ کے ساتھ بدل ديتا ھے اور فرماتا ھے :” ھم ان پر پتھروں کي بارش کريں گے “( سورہ ٴ حجر / 74) ان دو آيات کے انضمام سے واضح ھو جاتا ھے کہ بري بارش کا مطلب ” آسماني پتھر ھے “ اگر کوئي شخص تحقيق و جستجو کے ساتھ اھلبيت عليھم السلام کي احاديث اور ان روايات سے جو مفسرين صحابہ اور تابعين سے ھم تک پھونچي ھيں ، ان کے اندر معني تلاش کرے تو اس ميں کوئي شک و شبہ نھيں رھے گا کہ قرآن سے قرآن کي تفسير کا طريقہ صرف اھلبيت عليھم السلام سے ھي مختص ھے ـ

قرآن مجيد کا ظاھر اور باطن

جيسا کہ ھميں يہ معلوم ھو چکا ھے کہ قرآن کريم اپنے لفظي بيان کے ساتھ ديني مقاصد اور مطلب کو واضح کرتا ھے ، اور لوگوں کو اعتقاد ، ايمان اورعمل کے بارے ميں احکام ديتا ھے ، ليکن قرآن مجيد کے مقاصد صرف اسي مرحلے پر منحصر يا ختم نھيں ھوتے بلکہ انھيں الفاظ و عبارات کے اندر اور انھيں مقاصد کے پردے ميں ايک معنوي مرحلہ اور کئي دوسرے گھرے مقاصد اپني بے انتھا وسعتوں کے ساتھ چھپے ھوئے ھيں کہ اللہ تعاليٰ کے خاص بندے اپنے پاک دلوں کے ساتھ ان کو سمجھ سکتے ھيں ـ

پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم جو قرآن مجيد کے خدائي معلم ھيں فرماتے ھيں : ” قرآن مجيد کا ظاھر بھت ھي خوش آيند اور خوبصورت ھے اور اس کا باطن بھت ھي گھرا اور وسيع ھے “ـ ( تفسير صافي ج /4 ) پھر فرماتے ھيں :” قرآن مجيد کا ايک باطن ھے ( ايک باطني معني ھے ) اور ھر باطن کے اندر سات باطن ( معني ) ھيں اور اسي طرح آئمہ عليھم السلام کي احاديث ميں بھي قرآن کے باطن کي طرف بھت زيادہ اشارے ھوئے ھيں “( سفينة البحار تفسير صافي ص 153 ، اور تفسير مرسلا ميں آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم سے حديث نقل کي گئي ھے اور تفسير عياشي ، معاني الاخبار ميں بھي ايسي احاديث نقل ھوئي ھيں ) ـ



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next