شيعوں کا علمي تفکر



عرفان نفس اور اس کے منصوبوں کي طرف کتاب و سنت کي رھنمائي

انسان اور عرفاني ادراک

اگر چہ دنيا کے تمام انسان اپني معاشي حالت کو سدھارنے اور روز مرہ زندگي کي ضروريات کو پورا کرنے کي کوشش ميں ھمہ تن مصروف ھيں اور معنويات کي طرف توجہ نھيں ديتے ليکن اس کے باوجود ان افراد کي سرشت ميں ايک فطرت يا احساس موجود ھے جس کو حقيقت بيني کا احساس يا غريزہ “ کھا جا تا ھے جو کبھي کبھي بعض انسانوں ميں پيدا اور جاري ھوتا ھے اور يھي احساس ان کو بعض معنوي مطالب کے سمجھنے کے لئے ابھارتا ھے ـ

ھر انسان ( سوفسطائيوں اور شکاکوں کے علاوہ جو حقيقت اور واقعيت کو ايک خيال و گمان يا وھم و خرافات جانتے ھيں ) ايک ثابت اور مستقل حقيقت پر ايمان رکھتا ھے اور جب کبھي اپنے صاف ذھن اور پاکيزہ فطرت کے ساتھ اس کائنات کي مستقل اور ثابت حقيقت ميں غور کرتا ھے تو اس وقت اس دنيا کے تمام اجزاء کي نا پائداري کو سمجھ ليتا ھے ـ دنيا اور دنيا کے مظاھر کو ايک آئينے کي طرح ديکھتا ھے جو خوبصورتي کي مستقل حقيقتوں کو نظروں کے سامنے لے آتے ھيں کہ ان حقائق کو سمجھنے کي لذت ديکھنے والوں کي نظروں ميں ھر دوسري لذت کو ذليل و خوار اور پست کر ديتا ھے لھذا فطري طور پر يہ لذتيں انسان کو ان دوسري تمام لذتوں کي طرف لے جانے سے روکتي ھيں جو اس دنيا ميں موجود ھيں اور مادي زندگي کي ناپائيدار لذتوں پر مبني ھيں ـ

يہ وھي عرفاني جذبہ ھے جو خدا شناسي انسان کو عالم بالا ( خدا ) کي طرف متوجہ کرتا ھے اور خدائے پاک کي حجت کو انسان کے دل ميں جا گزين کرتا ھے اور اللہ کے سوا ھر چيز کو بھلا ديتا ھے اور اس طرح انسان کي تمام مادي ، دنياوي آرزوؤں اور خواھشوں پر خط بطلان کھينچ ديتا ھے ـ پھر انسان کو خدائے غائب کي پرستش اور عبادت کے لئے ابھارتا ھے ، جھاں ھر چيز واضح اور آشکار ھو جاتي ھے ـ در حقيقت يہ بھي باطني کشش کا نتيجہ ھے جس کے ذريعے خدائي اور آسماني مذاھب اس دنيا ميں پيدا ھوئے ھيں ، ” عارف “ اس شخص کو کھا جاتا ھے جو مھر ومحبت اور عشق کے ساتھ خدا کي عبادت اور پرستش کرے نہ کہ ثواب کي اميد اور عذاب کے ڈر سے ـ يھاں يہ چيز واضح ھو جاتي ھے کہ عرفان کو ھر گز دوسرے مذاھب کے مقابلے ميں ايک مستقل مذھب نھيں جاننا چاھئے بلکہ عرفان عبادات کے طريقوں ميں سے ايک طريقہ ھے ( يعني محبت اور عشق کے ساتھ عبادت ،ـ نہ کہ اميد اور خوف سے ) اور مذاھب کے حقائق کو سمجھنے کے لئے ايک راستہ ھے جو ظواھر ديني اور عقلي تفکر کے مقابلے ميں ايک طريقہ ھے ـ

خدا پرستي ( توحيد ) کے تمام مذاھب حتيٰ کہ ثنويت ( دو خداؤں پر ايمان ) ميں بھي ايسے لوگ موجود ھيں جو سلوک ( عرفان ) کے ذريعے خدا تک پھونچتے ھيں يا عبادت کرتے ھيں اور ايسے ھي ثنويت ، يھوديت ، عيسائيت ، مجوسيت اور اسلام ميں بھي عارف لوگ موجود ھيں اور غير عارف بھي ـ

اسلام ميں عرفان کا ظھور

پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ Ùˆ آلہ وسلم  Ú©Û’ اصحاب ميں ( جن Ú©ÙŠ تعداد کتب رجال ميں تقريباً بارہ ھزار ) Ù„Ú©Ú¾ÙŠ ھوئي Ú¾Û’ اور ان Ú©ÙŠ شناخت Ú¾Ùˆ Ú†Ú©ÙŠ Ú¾Û’ ) سے صرف حضرت علي عليہ السلام Ú¾ÙŠ Ú¾ÙŠÚº جن Ú©Û’ فصيح Ùˆ بليغ بيانات عرفاني حقائق اور معنوي زندگي Ú©Û’ مراحل اور بيکران علمي ذخائر پر مشتمل Ú¾ÙŠÚº Ù€ وہ تحريريں جو تمام صحابہ کرام سے Ú¾Ù… تک پھونچي Ú¾ÙŠÚº ان ميں اس قسم Ú©Û’ مسائل موجود Ù†Ú¾ÙŠÚº Ú¾ÙŠÚº Ù€ آپ Ú©Û’ اصحاب اور شاگردوں ميں سے بعض سلمان فارسي ØŒ اويس قرني ØŒ کميل بن زياد ØŒ رشيد ھجري اور ميثيم تمار ايسے اشخاص بھي موجود Ú¾ÙŠÚº جن Ú©Ùˆ عام اسلامي عارف لوگ حضرت علي عليہ السلام Ú©Û’ بعد اپنے سلسلوں Ú©Û’ باني اور روحاني مرشد کھتے Ú¾ÙŠÚº Ù€ اس گروہ اور طبقے Ú©Û’ بعد بعض دوسرے افراد مثلاً طاؤس يماني ØŒ مالک بن دينار ØŒ ابراھيم ادھم اور شفيسق بلخي ايسے افراد Ú¾ÙŠÚº جو دوسري صدي ھجري ميں پيدا ھوئے تھے اور تصوف Ùˆ عرفان Ú©Ùˆ آشکار نہ کرتے ھوئے بھي عام زاھدوں اور لوگوں Ú©Û’ لئے اولياء اللہ اور پاک بندوں Ú©Û’ طور پر مشھور تھے ،ـ ليکن بھر حال يہ لوگ اپنے سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ طبقے Ú©Û’ ساتھ اپنے تعلقات Ú©Ùˆ مخفي Ù†Ú¾ÙŠÚº رکھتے تھے Ù€

اس طبقے کے بعد دوسري صدي ھجري کے آخر اور تيسري صدي ھجري کے آغاز ميں ايک دوسرا گروہ پيدا ھوا جن ميں با يزيد بسطامي ، معروف کرخي ، جنيد بغدادي اور ايسے ھي دوسرے اولياء اللہ حامل ھيں جنھوں نے عرفاني سير و سلوک کي وادي ميں قدم رکھا اور تصوف و عرفان کو آشکار کيا کرتے تھے ـ يہ لوگ کشف و شھود اور کرامت کا اظھار بھي کيا کرتے تھے ـ لھذا يہ لوگ اپنے نا شائستہ اور نا پسنديدہ اظھارات وبيانات کي وجہ سے اپنے وقت کے فقيھوں اور متکلمين ( ماھرين علم کلام ) کو اپنے خلاف ابھرنے کا موقع ديا کرتے تھے ، جس کے نتيجے ميں انکے لئے بھت زيادہ مشکلات پيدا ھو گئيں ، اس طرح ان ميںسے بھت زيادہ افراد کو قيد و بند اور شکنجوں کي سزائيں دي گئيں ، حتيٰ کہ بعض کو سولي پر بھي چڑھا ديا گيا ـ

اس کے باوجود يہ لوگ اپنے مخالفوں اور دشمنوں کا مقابلہ کيا کرتے تھے اور اس طرح دن بدن طريقت ميں توسيع اور ترقي ھوتي رھي ، يھاں تک کہ ساتويں اور آٹھويں صدي ھجري ميں يہ تصوف و عرفان اور طريقت بھت زيادہ وسعت اور طاقت اختيار کر گئي ـ اس کے بعد کبھي اوج اور کبھي تنزل پر پھونچتي رھي اور آج تک اپنے طريقوں اور زندگي کو جاري رکھے ھوئے ھے ـ

اگر چہ مشائخ عرفان ، جن کے نام تذکروں ميں محفوظ ھيں ، ظاھري طور پر مذھب اھلسنت رکھتے ھيں ، اور وہ طريقت جو آج ھم مشاھدہ کرتے ھيں ( کہ ايک قسم کے آداب و رسوم پر مشتمل ھے اور کتاب و سنت ميں ايسي ھرگز موجود نھيں ھے ) انھيں کي ياد گار ھے ، پھر ان کے بعض آداب و رسوم شيعوں ميں بھي سرايت کر چکے ھيں يا شيعوں سے ملتے جلتے ھيں ـ

جيسا کہ کھا جاتا ھے ، ايک گروہ کا عقيدہ يہ تھا کہ اسلام ميں سير و سلوک کا منصوبہ يا پروگرام صاف طور پر بيان نھيں کيا گيا ھے بلکہ معرفت ِ نفس ( خود ي ) کا طريقہ ھي ايسا ھے جس کو مسلمانوں نے شروع کيا تھا اور يھي خدا کا پسنديدہ اور مقبول طريقہ ھے مثلا رھبانيت کا طريقہ حضرت عيسيٰ مسيح عليہ السلام کي دعوت حق اور تبليغ دين ميں موجود نہ تھا ليکن عيسائيوںنے خود بخود اس کو گھڑ کر مقبول بنا ديا ھے ـ



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next