شيعوں کا علمي تفکر



اس طرح مشائخ طريقت ميں سے ھر ايک نے جس طرح بھي آداب و رسوم کے مطابق ٹھيک سمجھا اسے اپنے سير و سلوک کے پروگراموں اور منصوبوں ميں جاري کر ديا اور اپنے مريدوں کو حکم ديا کہ اس طريقے کي پيروي کريں لھذا يہ طريقہ يا پروگرام آھستہ آھستہ ايک مستقل اور وسيع شکل اختيار کر گيا ـ

مثلاً مريدي اختيار کرنے کي رسومات ، ذکر اور وظيفے کي تلقين ، خرقہ پھنانا ، موسيقي کا استعمال ، خوراک و غذا کا پروگرام ، ذکر اور وظيفے کے وقت وجد ميں آنا اور کبھي کبھي بعض فرقوں ميں نوبت يھاں تک پھونچ گئي کہ شريعت کو بالکل نظر انداز کر ديا گيا اور پھر شريعت و طريقت ميں جدائي پڑ گئي لھذا اس طريقے کے جانبدار اور طرفدار و پيروکار عملي طور پر باطني فرقے کے ساتھ ملحق ھو گئے ، ليکن شيعوں کے عقيدتي قوانين کے پيش نظر جو چيز حقيقي اسلام اور اس کے اصلي اصولوں اور اسناد سے ثابت ھوتي ھے ( يعني کتاب و سنت سے ) وہ اس عقيدے اور طريقے کے بالکل خلاف ھے اور اس کا مطلب ھرگز يہ نھيں کہ ديني اسناد وبيانات ( آيات و احاديث ) اس حقيقت کي طرف رھنمائي نھيں کرتے يا اس کے بعض پروگراموں اور منصوبوں کو واضح کرنے ميں سستي کرتے ھيں يا کسي شخص کے متعلق ( خواہ کوئي بھي ھو ) فرائض اور حلال و حرام کو نظر انداز کر ديتے ھيں ـ

عرفان، نفس اور اس کے منصوبوں کي طرف کتاب و سنت کي رھنمائي

اللہ تعاليٰ اپنے کلام ميں چند جگہ فرماتا ھے اور حکم ديتا ھے کہ لوگوں کو چاھئے کہ قرآن مجيد ميں تفکر اور غور کريں اور اس کے ساتھ ھي اس کے احکام پر عمل کريں اور صرف معمولي اور سطحي طور پر سمجھنے پر ھي قناعت نہ کريں اور اپني بھت زيادہ آيات ميں دنيائے فطرت کا اور اس کے علاوہ جو کچھ اس ميں موجود ھے کسي استثناء کے بغير اپني آيات اور نشانيوں کا تعارف کراتا ھے ـ

آيت يا نشاني کے معني ميں تھوڑا سا غور کرنے سے يہ بات واضح ھو جاتي ھے کہ آيت يا نشاني اس وجہ سے آيت اور نشاني ھے کہ دوسري چيز کو واضح کرے نہ کہ اپنے آپ کو مثلاً سرخ بتي جو خطرے کي علامت ھے اور ايک جگہ پر نصب کي جاتي ھے ، اس کو ديکھنے سے انسان خطرے کا احساس کرتا ھے اور خطرے کے سوا اس کے ذھن ميں اور کوئي چيز نھيں آتي ، لھذا اس کو ديکھنے سے انسان صرف سرخ بتي کي طرف توجہ نھيں کرتا ( بلکہ خطرے کي طرف توجہ کرتا ھے ) اور اگر بتي کي شکل اور شيشے کي خاصيت يا رنگ کا خيال کرے تو اس کے ذھن ميں بتي کي صورت يا شيشے اور رنگ کے سوا کچھ نھيں آئے گا ، نہ کہ خطرے کا تصور ـ

لھذا اگر دنيا اور دنيا Ú©Û’ مظاھر سب Ú©Û’ سب اور ھر لحاظ سے خدا وند کريم Ú©ÙŠ نشانيوں Ú©Û’ طور پر سمجھے جائيں تو يہ سب چيزيں الگ وجود Ú©ÙŠ مالک Ù†Ú¾ÙŠÚº Ú¾Ùˆ Úº Ú¯ÙŠ اور جس طرح بھي ان ميں غور کيا جائے خدا وند پاک Ú©ÙŠ نشانيوں اور علامتوں Ú©Û’ سوا اور کوئي چيز نظر Ù†Ú¾ÙŠÚº آئے Ú¯ÙŠ Ù€ جو شخص قرآني تعليمات اور ھدايات Ú©Û’ ذريعے اس تصور سے دنيا اور اھل دنيا Ú©ÙŠ طرف توجہ کرے کہ وہ خدائے پاک Ú©Û’ سوا کسي اور چيز Ú©Ùˆ Ù†Ú¾ÙŠÚº  ديکھے گا اور اسي طرح دنيا Ú©ÙŠ خوبصورتي Ùˆ رعنائي جو دوسرے لوگوں کودنيا Ú©Û’ نقشے پر نظر آتي Ú¾Û’ ØŒ Ú©Û’ مقابلے ميں وہ ايک لا متناھي خوبصورتي Ú©Ùˆ ديکھے گا جو اس دنيا Ú©Û’ تنگ دريچے سے اپني تجلي Ú©Ùˆ ظاھر کرتي Ú¾Û’ اور اس وقت انسان اپني زندگي Ú©Û’ خرمن Ú©Ùˆ برباد کر Ú©Û’ اپنے دل Ú©Ùˆ خدا Ú©ÙŠ محبت اور عشق ميں محو کر ديگا Ú¾Û’ Ù€

جيسا کہ واضح ھے ، يہ ادراک ، کانوں ، آنکھوں يا دوسرے حواس يا عقل و خيال کے ذريعے حاصل نھيں ھو سکتا ، کيونکہ ان چيزوں يا اعضاء کا کام خود بھي خدا کي نشانيوں اور علامتوں يا آيات ميں ھے لھذا يہ تمام حواس اس ادراک و ھدايت کو حاصل کرنے ميں عاجز اور قاصر ھيں ـ( بحار الانوار ج/ 2 ص / 186)

 ÙˆÛ سالک جو خدا Ú©ÙŠ يا د ميں ما سواء اللہ Ú©Ùˆ فراموش کرنے Ú©ÙŠ کوشش Ù†Ú¾ÙŠÚº کرتا ØŒ جب سنتا Ú¾Û’ کہ خدا وند تبارک Ùˆ تعاليٰ اپنے کلام پاک ميں ايک جگہ فرماتا Ú¾Û’ :

” يآا يّھا الذين اٰمنوا عليکم انفسکم ، لا يضرکم من ضل اذا اھتديتم “( سورہُ مائدہ /105 ) ” اے لوگو! جو ايمان لائے ھو اپنے نفس کو پھچانو ، کيونکہ جب تم نے حقيقي راستے کو پھچان ليا تو دوسرے لوگ جو گمراہ ھو چکے ھيں تمھيں کوئي نقصان نھيں پھونچا سکيں گے “ـ

تو اس وقت سمجھ ليتاھے کہ وہ شاھراہ جس پر چل کر حقيقي اور کامل ھدايت حاصل کي جا سکتي ھے ، صرف انساني نفس کا ھي راستہ ھے اور انسان کے حقيقي راھنما نے جو اس کا خدا ھے ، اس انسان کو ذمہ دار اور خود مختار بنا ديا ھے تاکہ اپنے آپ کو پھچانے اور تمام دوسرے راستوں اور طريقوں کو نظر انداز کر کے صرف نفس کا طريقہ اپنائے اور اپنے نفس کے ذريعے خدا کو ديکھے اور پھچانے ، اگراس نے ايساکرلياتووہ اپنے حقيقي اور واقعي مطلوب کو پالے گا ـ

” من عرف نفسہ فقد عرب ربہ “ ” جس شخص نے اپنے آپ کو پھچان ليا اس نے خدا کو پھچان ليا “ـ

” اعفکم بنفسہ اعرفکم بربہ “ ”تم ميں سے وھي شخص خدا کو بھتر طور پر پھچانتا ھے ، جو اپنے آپ کو بھتر پھچانتا ھے “ـ

ليکن سير و سلوک کا منصوبہ اور پروگرام ! اس سے متعلق قرآن کريم کي بھت زيادہ آيات موجود ھيں جو خدا کو ياد کرنے کا حکم ديتي ھيں ـ مثلاً اللہ تعاليٰ فرماتا ھے :

” فاذکروني اذکرکم “(سورہ ٴ بقرہ / 152) ” مجھے ياد کرو تاکہ ميں بھي تمھيں ياد کروں “ ـ

 Ø§Ø³ Ú©Û’ علاوہ دوسري آيات ØŒ اعمال صالح ( نيک اعمال ) Ú©Û’ متعلق قرآن Ùˆ سنت ميں تفصيلات آئي Ú¾ÙŠÚº اور آخر ميںخداوندعالم فرماتا Ú¾Û’ : ” لقد کان Ù„Ú©Ù… في رسول اللہ اسوة حسنة “ ( سورہُ احزاب / 21)” تمھارے لئے سيرت رسول خدا ميں اسوہ حسنہ Ú¾Û’ Ù€

پس کيسے ممکن اور متصور ھو سکتا ھے کہ اسلام ، خدا کے راستے کو تو تشخيص دے اور پھر لوگوں کو اس راستے پر چلنے کي تاکيد اور وصيت نہ کرے ؟

يا اس راستے کو دوسروں کے سامنے تو پيش کرے ليکن اس کے منصوبوں اور پروگراموں کو بيان کرنے ميں غفلت يا سستي کرے ؟

حالانکہ خدا وند تعاليٰ اپنے کلام ميں فرماتا ھے : ” و نزّلنا عليک الکتٰب تبيانا لکل شي ءٍ “ ( سورہ نحل / 89 ) ”ھم نے قرآن کو تم پر نازل کيا ھے اور يہ کلام ھر اس چيز کے بارے ميں واضح بيان کرتا ھے ، جو لوگوں کے دين و دنيا سے متعلق ھو ـ



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13