شيعوں کا علمي تفکر



ان احاديث کي اصل بنياد اور ساکہ وہ مثال ھے جو اللہ تعاليٰ سورہ ٴ رعد آيت 17/ ميں بيان فرماتا ھے اللہ تعاليٰ اس آيہ کريمہ ميں آسماني فيض کو اس بارش سے تشبيہ ديتا ھے جو آسمان سے نازل ھوتي ھے اور زمين و اھل زمين کي زندگياں اس سے وابستہ ھيں ـ بارش آنے سے سيلاب جاري ھو جاتا ھے اور سيلاب کے مختلف راستے اپنے اندازے کے مطابق اس پاني کو اپنے اندر کھينچ ليتے ھيں اور ان کے اندر پاني بھر جاتا ھے اور وہ پاني جا ري ھو جاتا ھے ـ سيلاب کا پاني جھاگ اور کف سے پوشيدہ ھو جاتا ھے ليکن اس جھاگ کے نيچے بھي وھي پاني ھوتا ھے جو زندگي بخش ھے اور لوگوں کے لئے بھت ھي فائدہ مند ھوتا ھے ـ ( بحار الانوار ج / 1 ص / 117 )

جيسا کہ مندرجہ بالا مثال ميں خدا وند تعاليٰ اشارہ کرتا ھے ، آسماني معارف اور قرآني علوم جو انسان کي معنويت کو جان بخشتے ھيں ، کو حاصل کرنے ميں لوگوں کے فھم و ادراک اور سوچ کي گنجائش بھي مختلف ھوتي ھے بعض لوگ ايسے ھوتے ھيں جو اس چند روزہ عارضي زندگي اور جھان گزراں ميں مادے اور مادي زندگي کے علاوہ کسي اور چيز کو کوئي اھميت ھي نھيں ديتے اور اسي طرح مادي خواھشات کے بغير کسي دوسري چيز ميں زيادہ دلچسپي نھيں ليتے ـ اور مادي نقصانات کے سوا کسي اور چيز سے نھيں ڈرتے ـ ان لوگوں کو چاھئے کہ کم از کم اپنے درجات ميں اختلاف کے لحاظ سے آسماني معارف اور علوم کو قبول کريں اور اجمالي اعتقادات پر يقين کريں اور اسلام کے عملي دستور اور قانون پر عمل کريں اور آخر کار خدائے وحدہ لا شريک کي پرستش اور عبادت ، قيامت کے دن ثواب کي خواھش يا عذاب کے ڈر سے ھي کريں اور ايسے لوگ بھي موجود ھيں جو صفائے باطن اور صفائے فطرت کے ذريعے اپني سعادت اور خوش بختي کو اس دنيا کي چند روزہ اور عارضي زندگي کي لذتوں ميں نھيں جانتے اور اس جھان کے سود و زيان ، نفع و نقصان ، تلخيوں اور شيرينيوں کو ايک دھوکے باز خيال ( سراب ) کے سوا کچھ نھيں سمجھتے اور ايسے ھي اس کاروان ھستي کے گزرے ھوئے لوگ جو گزشتہ زمانے ميں سر خرو زندگي گزار کر اس جھان فاني سے رخصت ھو چکے ھيں اور آج ھمارے لئے افسانہ بن چکے ھيں ـ ان کي زندگيوں اور کارناموں سے عبرت حاصل کرتے رھتے ھيں ـ

يہ لوگ اپنے پاک دلوں کے ذريعے فطري طور پر ابدي دنيا کي طرف متوجہ ھوتے ھيں اور اس نا پائيد ار اور عارضي دنيا کے نقوش اور گونا گوں نظاروں کو خدا تعاليٰ کي نشانيوں کے طور پر ديکھتے ھيں ليکن وہ اس کے لئے کسي قسم کي حقيقت ، استقلال اور پائيداري کے قائل نھيں ھوتے ـ

اس وقت يہ لوگ ان زميني دنياوي اور آسماني نشانيوں کے ذريعے خدائے پاک کي لا متناھي عظمت اور طاقت کو اپنے معنوي ادراک کے ساتھ مشاھدہ کرتے ھيں اور ان کے ناپاک دل آفرينش ، فطرت اور حقيقت کے رموز کے واقف اور شيفتہ ھو جاتے ھيں اور وہ لوگ بجائے اس کے کہ ذاتي منفعت پرستي کے تنگ و تاريک غاروں ميں مقيد ھوں ، ابدي دنيا کي لا متناھي فضا ميں پرواز کرتے ھوئے اوپر چلے جاتے ھيں ـ

يہ لوگ جب آسماني وحي کے ذريعے سنتے ھيں کہ خدائے تعاليٰ بتوں کي پرستش سے منع فرماتا ھے اس کے معني ظاھري بتوں کے سامنے سجدہ نہ کرنے کے ھيں تو وہ اس ممنوعيت اور ” نھي “ کے ذريعے سمجھ جاتے ھيں کہ خدا کے سوا کسي اورکي پرستش اور اطاعت نھيں کرني چاھئے کيونکہ اطاعت کي حقيقت بھي بندگي اور سجدہ کرنے کے سوا کچھ نھيں ھے ـ پھر وہ لوگ اس سے اور زيادہ سمجھ جاتے ھيں کہ خدا کے سوا کسي سے نھيں ڈرنا چاھئے اور نہ ھي کسي سے اميد اور توقع رکھني چاھئے ـ اس سے بھي اوپر چلے جاتے ھيں اور ان کو معلوم ھو جاتا ھے کہ نفساني خواھشات کے سامنے بھي سر تسليم خم نھيں کرنا چاھئے پھر اس سے بھي زيادہ سمجھ جاتے ھيں کہ خدا کے سوا کسي اور کي طرف نھيں توجہ کرني چاھئے ـ

اسي طرح جب کہ قرآن مجيد کي زباني سنتے ھيں کہ قرآن کريم نماز کا حکم ديتا ھے اور اس کے ظاھري معني صرف مخصوص عبادت کي انجام دھي کے ھيں تو باطني طور پر وہ سمجھ جاتے ھيں کہ جان و دل سے خدا کے سامنے خضوع و خشوع کے ساتھ سجدہ ريز ھو جانا چاھئے ـ پھر اس سے زيادہ سمجھتے ھيں کہ خدا کے سامنے اپنے آپ کو ، سچ جاننا چاھئے اور اپنے آپ کو بھول جانا چاھئے اور صر ف خدا کي ياد ميں ھي مصروف رھنا چاھئے ـ

جيسا کہ واضح ھے مندرجہ بالا دو مثالوں ميں جو باطني معني لکھے گئے ھيں وہ امر و نھي کے لفظي معني نھيں ھيں ليکن جو لوگ وسيع طور پر تفکر کرتے ھيں اور جھان بيني کو خود بيني پر ترجيح ديتے ھيں ان کے لئے ان معاني کا ادراک ناقابل اجتناب ھے ـ

گزشتہ بيان سے قرآن مجيد کے ظاھري اور باطني معني واضح ھو گئے ھيں اور يہ بھي واضح ھو گيا ھے کہ قرآن مجيد کا باطن اس کے ظاھر کو منسوخ نھيں کرتا بلکہ اس روح کي طرح ھے جو اپنے جسم کو زندگي اور جان ديتي ھے ـ اسلام ايک عمومي اور ابدي دين ھے جو انسانيت کي اصلاح اور بھتري کے لئے آيا ھے اور اس کے سامنے معاشرے اورانسانوں کي اصلاح بھت زيادہ اھميت رکھتي ھے لھذا اسلام اپنے ظاھري قوانين سے جو معاشرے کي اصلاح کے لئے ھيں اور اپنے سادہ عقائد سے جو مذکورہ قوانين کے نگھبان اور محافظ ھيں ، ھر گز ھاتہ نھيں اٹھاتا ، يا ان کو نظر انداز نھيں کرتاـ

يہ کيسے ممکن ھے کہ ايک معاشرہ اس فريب اور دھوکے کے ساتھ کہ انسان کا دل پاک ھونا چاھئے اور عمل کي کوئي اھميت نھيں ھے ـ ھرج و مرج اور افرا تفري کے ساتھ زندگي گزارے اور پھر بھي سعادت اور خوش بختي کو حاصل کرے ؟ اور پھر يہ بھي کيسے ممکن ھو سکتا ھے کہ نا پاک کردار اور گفتار ، ايک پاک دل کو جنم دے سکے يا ايک پاک دل سے نا پاک کردار اور گفتار جنم لے ؟ خداوند تبارک و تعاليٰ اپني کتاب مقدس ميں فرماتا ھے :” پاک لوگ پاک لوگوں ميں سے ھيں اور نا پاک لوگ نا پاک لوگوں ميں سے ھيں ـ

پھر فرماتے Ú¾Û’ : ” اچھي زمين اپني نباتات Ú©Ùˆ اچھي طرح پرورش کرتي Ú¾Û’ اور بري زمين سے برے فصل Ú©Û’ سوا Ú©Ú†Ú¾ پيدا Ù†Ú¾ÙŠÚº ھوتا “ Ù€  ” Ùˆ البلد الطيب يخرج بناتہ باذن ربہ ØŒ Ùˆ الذي خبت لا يخرج الا نکدا ØŒ کذٰلک نصرف الاٰيٰت لقوم يشکرون “ (سورہ Ù´ اعراف / 58)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next