شيعوں کا علمي تفکر



گزشتہ بيان کے ذريعے واضح ھو گيا ھے کہ قرآن مجيد ميں ظاھر اور باطن موجود ھے اور پھر باطن کے مختلف درجات ھيں اور وہ احاديث نبوي جو قرآن کريم کے اس بيان کي تصديق کرتي ھيں ، اگلے صفحات ميں آئيں گي ـ

قرآن مجيد کي تاويل

اسلام کے اوائل ميں اکثريت اھلسنت ميں يہ مشھور تھا کہ جس وقت ضرورت اور دليل موجود ھو ، قرآن مجيد کے ظاھري معاني سے چشم پوشي کر کے معنوي اور باطني معني مراد لئے جا سکتے ھيں اور ان ظاھري معاني کے خلاف تفسير کو ” تاويل “ کھا جاتا تھا ، اور جس چيز کو قرآن مجيد ميں تاويل کھا گيا ھے وھي معني تفسير کو ديئے جاتے تھے ـ اھلسنت کي مذھبي کتابوں اور اسي طرح مختلف مذاھب کے مناظروں ميں جو لکھے بھي جا چکے ھيں ، يہ مسئلہ بھت زيادہ دکھائي ديتا ھے کہ ايک مسئلے ميں جو مذھبي علماء کے اجماع سے يا کسي اور وجہ سے ثابت ھو جاتا ھے ـ اگر ايک آيت کے ظاھري معني دوسري قرآني آيات کے مخالف ھوں تو اس آيت کي تاويل کر کے خلاف ظاھر معاني کر ديئے جاتے ھيں اور کبھي کبھي دو مخالف گروہ اپنے دو متقابل اقوال کے لئے قرآني آيات سے دلائل سے حاصل کرتے ھيں اور دونوں گرھوں ميں سے ايک گروہ کي آيات کي تاويل کرتا ھے ـ

يہ طريقہ کم و بيش شيعہ مذھب ميں بھي سرايت کر گيا ھے اور ان کي بعض علم کلام کي کتابوں ميں بھي ديکھا جاتا ھے ، ليکن جو چيز قرآني آيات اور ائمہ اھلبيت عليھم السلام کي احاديث ميں کافي غور و فکر کے بعد حاصل ھوتي ھے وہ يہ ھے کہ قرآن مجيد نے اپنے رس بھرے بيان اور واضح مطالب ميں ھر گز معمہ گوئي اور مبھم روش کو اختيار نھيں کيا ھے اور اپنے مطالب اور مضامين کو سوائے ظاھري معاني کے ،اپنے ماننے والوں کے سامنے پيش نھيں کرتا اور جس کو قرآن مجيد ميں تاويل کھا گيا ھے ، وہ لفظي معني نھيں ھيں بلکہ وہ حقائق ھيں جو عام لوگوں کے فھم و ادراک سے بھت بالاتر ھيں جن ميں سے اعتقادي معارف اور قرآن مجيد کے علمي احکام سر چشمہ حاصل کرتے ھيں ـ ھاں ! تمام قرآن مجيد کي تاويل ھو سکتي ھے اور اس کي تاويل بھي براہ راست غور و فکر اور فکر و تدبير کے ذريعے قابل فھم نھيں ھے اور الفاظ کے ذريعے بھي اس کو بيان نھيں کيا جا سکتا اور صرف خدا کے پيغمبر ، پاک لوگوں اور اولياء اللہ ھي جو انساني آلائشوں سے پاک ھوتے ھيں ، اپنے مشاھدات کے ذريعے ان کو سمجھ سکتے ھيں ، مگر قرآن مجيد کي تاويل قيامت کے دن سب لوگوں پر ظاھر ھو جائے گا ـ

وضاحت

ھم بخوبي جانتے ھيں کہ جس چيز نے انسانوں کو بات کرنے ، الفاظ بنانے اور ان الفاظ سے استفادہ کرنے پر مجبور کيا ھے وہ معاشرتي اور مادي ضروريات ھيں ، انسان اپني معاشرتي زندگي ميں مجبور اور نا گزير ھے کہ اپنے ضمير کي آواز اور اپنے ارادے کو اپنے ھم جنسوں کے سامنے پيش کرے ، ان کو اپنے دل کي بات بتائے اور سمجھائے اسي وجہ سے وہ اپني آواز اوراپنے کانوں سے مدد ليتا ھے اور اس کے علاوہ کبھي کبھي اشاروں اور آنکھوں سے بھي فائدہ اٹھاتا ھے ، يھي وجہ ھے کہ ايک گونگے اور ايک نا بينا فرد ميں يہ مفاھمت نھيں پائي جاتي ، کيونکہ جو بات نابينا کرتا ھے ، گونگا اور بھرہ شخص اس کو نھيں سن سکتا اور جس چيز کے بارے ميں گونگا اشارہ کرتا ھے اسے نابينا شخص نھيں ديکہ سکتا ـ اسي وجہ سے الفاظ بنانے اور چيزوں کے نام رکھنے کے لئے مادي ضرورت کو پورا کيا گيا ھے اور چيزوں کے بارے ميں الفاظ بنائے گئے ھيں جو مادي ھيں يا احساس کے نزديک ھيں ، جيسا کہ ھم ديکھتے ھيں کہ وہ شخص جس سے ھم بات کرنا چاھتے ھيں ، اگر اس کے حواس خمسہ ميں ايک حس کي کمي موجود ھے اور ھم اسي حس کے مطابق جو اس شخص ميں موجود ھي نھيں ھے بات کريں تو ايک قسم کي مثال دے کر اپنے مطلب کو واضح کرتے ھيں يا اشارہ کرتے ھيں ـ اور اگر ايک پيدائشي نابينا شخص ھو اور ھم اس کے ساتھ روشني يا رنگ کے بارے ميں بات کريں يا ايک بچے کے ساتھ جو ابھي سن بلوغ کو نھيں پھونچا ھے جنسي عمل کي لذت کے متعلق بات کريں تو اپنے مطلب کو ايک دوسري چيز سے تشبيہ دے کر يا مقابلہ کر کے يا مناسب مثال دے کر اسے سمجھاتے ھيں اور يوں اپنے مطلب کو ادا کرتے ھيں ، لھذا اگر فرض کريں کہ اس جھان ھستي ميں بعض حقائق اور رموز موجود ھيں جو مادے اور مادي آلائشوں سے پاک ھيں ( اور حقيقت بھي يھي ھے ) اور ھر زمانے ميں انسانوں ميں سے صرف چند لوگ ان کے مشاھدے اور ادراک کي صلاحيت رکھتے ھيں تو يہ حقائق و رموز لفظي بيان اور عام تفکر کے ذريعے قابل فھم نھيں ھوں گے اور مثال و تشبيھہ کے بغير ان کے بارے ميں کچھ بتايا نھيں جا سکے گا ـ

اللہ تعاليٰ اپني کتاب ميں فرماتا ھے : ھم نے اس کتاب کو پڑھے جانے والے الفاظ اور عربي زبان ميں نازل کيا ھے تاکہ شايد تم غور کرو اور سمجھ سکو ، حالانکہ يہ ام الکتاب ( لوح محفوظ ) ميں ھمارے پاس موجود ھے جو بھت ھي بلند مقام ھے ( يعني عام فھم دماغ اس تک نھيں پھونچ سکتا اور اس کو نھيں سمجھ سکتا ) ”انا جعلنٰہ قرآنا عربيا لعلّکم تعقلون ، و انہ في ام الکتٰب لدينا لعلي حکيم “ ( سورہُ زخرف /403)

اور پھر فرماتا ھے :” بيشک يھي کتاب يعني قرآن مجيد ھے جو بھت ھي عزيز اور گرامي ھے اور حقيقت ميں يہ عام نظروں سے پنھاں ھے کہ کوئي آدمي اس کو چھو نھيں سکتا مگر خدا کے پاک بندے “ـ ” انہ لقراٰ ن کريم ، في کتٰب مکنون ، لا يمسّہ الا المطھرون “ ( سورہ ٴ واقعہ /77ـ79)

اسي طرح پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم اور آپ کے اھلبيت عليھم السلام کے بارے ميں فرماتے ھيں :” اللہ تعاليٰ چاھتا ھے کہ اے( پيغمبر کے ) اھلبيت خدا تو بس يہ چاھتا ھے کہ تم کو ( ھر طرح ) کي برائي سے دور رکھے اور جيسا پاک و پاکيزہ رھنے کا حق ھے ويسا پاک و پاکيزہ رکھے ـ ” انما يريد اللہ ليذھب عنکم الرجس اھل البيت و يطھرکم تطھيرا “ (سورہُ احزاب / 33)

ان آيات کے ثبوت سے قرآن کريم کا منبع اور سر چشمہ اس جگہ ھے جھاں لوگوں کے فھم و ادراک کو ھر گز راہ نھيں ھے اور وہ لوگ اس تک پھونچنے سے عاري ھيں ، صرف خدا کے پاک بندوں کے سوا کسي شخص کو اس تک رسائي نھيں ھے اور نہ ھي کوئي اس کو سمجھ سکتا ھے اور نہ ھي اس کا دماغ وھاں تک پھونچ سکتا ھے اور پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے اھلبيت عليھم السلام انھيں پاک بندوں ميں سے ھيں ـ

ايک اور جگہ فرماتا ھے :” يہ لوگ جو قرآن مجيد پر ايمان نھيں لاتے وہ اس چيز کو تکذيب کرتے ھيں جس کے علم کو وہ احاطہ نھيں کر سکتے اور ابھي تک اس کي تاويل ان پر ظاھر نھيں ھوئي ھے “ ( يعني يہ تاويل ان پر قيامت کے دن ظاھر اور واضح ھو گي جب ھر چيز کو آنکھوں سے ديکھا جا سکے گا ) ( سورہ يونس /39) ” بل کذّبوا بما لم يحيطوا بعلمہ و لما ياتھم تاويلہ ، کذٰلک کذّب الذين من قبلھم فانظر کيف کان عاقبة الظالمين “

پھر ايک اور جگہ فرماتا ھے :” جس دن قرآن کي تاويل ( پورا قرآن ) ظاھر ھو گي تو جن لوگوں نے اس کو فراموش کر ديا تھا ، اس دن نبوت کي دعوت پر اعتراف کريں گے ( سورہ ٴ اعراف / 53) ” ھل ينظرون الا تاويلہ ، يوم ياتي تاويلہ يقول الذين نسوہ من قبل قد جآء ت رسول ربنا بالحق “ ـ



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next