جوانوں کوامام علي عليہ السلام کي وصيتيں



 

مؤلف :محمدسبحاني
ترجمه

اس مقالے کي سندنہج البلاغہ کا خط ۳۱ ہے۔ سيدرضي کے بقول صفين سے واپسي پر”حاضرين“ کے مقام پرحضرت نے يہ خط اپنے فرزند امام حسن بن علي عليہ السلام کے نام تحرير فرمايا۔ حضرت اس کے حکيمانہ کلام کا مخاطب امام حسن عليہ السلام کے توسط سے حقيقت کا متلاشي ہرجوان ہے۔ ہم يہاں فقط چنداہم بنيادي اصولوں کوبيان کريں گے۔

۱۔ تقوي اورپاک دامني :

امام فرماتے ہيں : ”واعلم يابني ان اجب ماانت آخذبہ الي من وصيتي تقوي اللہ“۔

بيٹاجان لوکہ ميرے نزديک سب زيادہ محبوب چيزاس وصيت نامے ميں تقوي الہي ہے جس سے تم وابستہ رہو۔مضبوط حصار(قلعہ)

جوانوں کے لئے تقوي کي اہميت اس وقت اجاگرہوتي ہے جب زمانہ جواني کے تمايلات،احساسات اورترغيبات کو مدنظر رکھاجائے۔ وہ جوان جوغرائز، خواہشات نفساني، تخيلات اورتندوتيزاحساسات کے طوفان سے دوچارہوتاہے ايسے جوان کے لئے تقوي ايک نہايت مضبوط ومستحکم قلعے کي مانندہے جواسے دشمنوں کي تاخت وتاراج سے محفوظ رکھتاہے ياتقوي ايک ايسي ڈھال کي طرح ہے جوشياطين کے زہرآلودتيروں سے جسم کومحفوظ رکھتي ہے۔

امام فرماتے ہيں :اعلمواعباداللہ ان التقوي دارحصن عزيز۔[1]

ترجمہ : اے اللہ کے بندوجان لوکہ تقوي ناقابل شکست قلعہ ہے۔

شہيدمطہري فرماتے ہيں ”يہ خيال نہيں کرناچاہئے کہ تقوي نمازوروزے کي طرح دين کے مختصات ميں سے ہے بلکہ يہ انسانيت کالازمہ ہے انسان اگرچاہتے ہے کہ حيواني اورجنگل کي زندگي سے نجات حاصل کرے تو مجبورہے کہ تقوي اختيارکرے“۔[2]



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next