اسلامى تہذيب و ثقافت

ڈاكٹر على اكبر ولايتي


ج) مامون كے بعد كا دور: مامون كے بعد متوكل عباسى (حكومت 247 _ 232قمري) كے دور ميں ترجمہ كا كام اسى طرح چلتا رہا، مثلا حنين بن اسحاق اسى طرح متوكل كے دور ميں بھى ترجمہ كے كام ميں مشغول رہے ، ليكن حكومت اسلامى كے مركز كا معتصم (حكومت 237 _ 218قمري) كے دور ميں بغداد سے سامرا منتقل ہونا مختلف تصانيف كے ترجمہ كى كيفيت ميں تبديلياں لايا، اس تبديلى كى اہم ترين وجہ '' بيت الحكمة'' جو كہ ايك اہم ترين علمى ادارہ تھا اسكى عظمت و اہميت كا كم ہونا تھا_

د) تحريك ترجمہ كا اختتام:بغداد ميں ترجمہ كى تحريك دو سو سال تك بہت زيادہ كام كرنے كے بعد بتدريج زوال پذير ہوگئي اور آخر كار نئے عيسوى ہزارہ كے آغاز ميں اپنے اختتام تك پہنچ گئي، البتہ يہاں تحريك ترجمہ كے ختم ہونے كا يہ مطلب نہيں ہے كہ لوگوں كى توجہ ترجمہ شدہ علوم كى طرف كم ہوگئي يا يونانى زبان سے ترجمہ كرنے والے ماہرين كم ہوگئے تھے بلكہ اس تحريك كے اختتام كى اصلى وجہ ان زبانوں ميں نئے موضوعات كا موجود نہ ہونا تھا ،دوسرے الفاظ ميں يہ تحريك اپنى اجتماعى مركزيت كھو بيٹھى تھى ، جديد مضامين كا پيش نہ ہونا سے مراد يہ نہيں ہے كہ ديگر غير دينى يونانى كتب ترجمہ كيلئے موجود نہ تھى بلكہ اس سے مراديہ ہے كہ ايسى يونانى كتب جو اس تحريك كے بانى حضرا ت، علماء اور دانشور طبقہ كى توجہ اور ضرورت سے متعلق ہوں موجود نہ تھيں ،كيونكہ بيشتر علوم و فنون ميں بہت عرصہ پہلے سے اصلى متون اور تصنيفات تشكيل پا چكى تھيں كہ جو ان ترجمہ شدہ كتب كى سطح سے كہيں بلند علمى سطح كى حامل تھيں ،اس تحريك كے بانى اور حامى گذشتہ دور كى نسبت اب ترجمہ كے كام كى طرف توجہ يا اسكى پشت پناہى كرنے كى بجائے خود عربى زبان ميں اصلى مضامين وموضوعات كو پيش كر رہے تھے _

 

4_ اسلامى تمدن ميں علمى مراكز

اسلام كے نئے تشكيل شدہ نظام كے استحكام اور اسلامى معاشرے كے اندرونى رشد و كمال سے بتدريج تعليمى مراكز وجود ميں آگئے جنہوں نے علوم و فنون كى پيدائشے اور وسعت ميں اہم كردار ادا كيا، پہلا تعليمى ادارہ كہ جو اس عنوان سے وجود ميں آيا اسكا نام بيت الحكمة تھا يہ بغداد ميں تعمير ہوا اور حكومتى خزانہ يا بيت المال كى رقم سے چلتا تھا_

يہ دانشوروں ،محققين اورخصوصاًايسے لائق مترجمين كے اجتماع كا مركز تھا كہ جو يونان كى علمى و فلسفى كتب كو عربى ميں ترجمہ كيا كرتے تھے، بيت الحكمة كہ جو مسلمانوں كا بغداد ميں پہلا كتابخانہ تھا اسكى بنياد ہارون الرشيد نے ڈالى ، اس سے پہلے منصور عباسى كہ جسكے زمانہ ميں ترجمہ كے كام كا آغاز ہوا تھا اس نے حكم ديا تھا كہ ديگر زبانوں سے كتب كو عربى ميںترجمہ كيا جائے بعد ميں يہى كتب بيت الحكمة كى اساس قرار پائيں _

مامون كے زمانہ ميںبيت الحكمة كو وسيع كيا گيا، اس نے كتابوں سے لدے ہوئے سو اونٹ بغداد منگوائے اور بظاہر يہ كتب اس قرار داد كے تحت مسلمانوں كودى گئيںجو مامون اور روم كے بادشاہ مشل دوم كے در ميان طے پائي، نيز مامون نے 3لاكھ دينار ترجمہ كے كام پر خرچ كيے، اس دور ميںبيت الحكمة كے علاوہ ديگر علمى ادارے بھى موجود تھے ان اداروں ميں سے ايك ''دار العلوم'' تھا يہ ايك عمومى لا ئبريرى كى شكل ميں تھا، اسى طرح مصر ميں ايك تعليمى مركز دار العلم فاطميون تھا، يہ ادارہ الحاكم با مراللہ جو كہ مصر ميں فاطمى خليفہ تھے انكے حكم سے 395 ہجرى قمرى قاہرہ ميں تعمير ہوا، اس ادارہ ميں تقريبا دس لاكھ كتب موجود تھيں ،موصل كادار العلم جعفر بن محمد ہمدان موصلى نے تعمير كيا يہ وہ پہلا علمى مركز تھا كہجسميں تمام علوم سے كتابيں جمع كى گئي تھيں موجودہ لبنان كے ايك شہر طرابلس ميںپانچويں صدى ہجرى كے آخر ميں ايك دارالعلم سوا لاكھ جلد كتابوں كے ساتھ موجود تھا_(1)

اسلامى دور كے ديگربہت اہم مشہورعلمى مراكز نظاميہ مدارس تھے، پانچويں صدى كے آخرى پچاس سالوں ميں خواجہ نظام الملك نے بغداد ، نيشابور ، اور ديگر شہروں ميں مدارس كى تعمير كر كے نظاميہ نام كے مدارس كے سلسلے كى بنياد ركھى ، بغداد كا نظاميہ جو كہ 459 قمرى ميں تاسيس ہوا اسميں ابواسحاق شيرازى تدريس كيا كرتے تھے، انكے بعد اس مدرسہ ميں تدريس كى سب سے بڑى كرسى امام محمد غزالى كو نصيب ہوئي ، اسكے بعد عالم اسلام ميں مدارس كا جال بچھ گيا ،سلجوقيوں كى مملكت ميں جو مدارس اور علمى مراكز خواجہ كے حكم سے تعمير ہوئے تو وہ خواجہ نظام الملك كى طرف منسوب ہونے كى وجہ سے نظاميہ كے عنوان سے مشہور ہوئے _

بغداد كے نظاميہ كے علاوہ اور مدارس نظاميہ بھى قابل ذكر ہيں مثلا نيشابور كا نظاميہ خواجہ نظام الملك اور ديگر سلجوقى بادشاہوں كى نيشابور شہر كى طرف خصوصى توجہ كے باعث تاسيس ہوا ،مشہور افراد مثلا امام موفق نيشابورى ، حكيم عمر خيام، حسن صباح ، امام محمد غزالى اور انكے بھائي امام احمد اور امام محمد نيشابورى نے اس مدرسے ميں تربيت پائي ، نيشابور كا يہ نظاميہ مدرسين اورمشہور فقہاء كى تعداد جو كہ وہاں تعليم ديتے تھے ،كے باعث بغداد كے نظاميہ كے بعد دوسرا مقام ركھتا تھا، اسى طرح اصفہان اور بلخ كے مدارس نظاميہ بھى نامور اساتذہ كے حامل تھے _

مجموعى طور پر كہا جاسكتا ہے كہ عالم اسلام ميں علمى و تعليمى مراكزمتعدد اور متنوع تھے، ان مراكز ميں سے وسيع اور غالب ترين علمى مراكز مساجد تھيں كہ جو سارے عالم اسلام ميں پھيلى ہوئي تھيں ،مساجد مسلمانوں كے دينى اجتماع كے سب سے پہلے مراكز ميں شمار ہوتى تھيں _



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next