اسلامى تہذيب و ثقافت

ڈاكٹر على اكبر ولايتي


ايك طرف اغيار نے مسلمانوں كى تمام خوبيوں كو ماننے سے انكار كيا اور دوسرى طرف مسلمانوں نے اپنے علمى اور ثقافتى سرمايہ كے اندراج ، ريكارڈ اور منظر عام پر لانے ميں غفلت كا مظاہرہ كيا اور اسكا نتيجہ اس غلط عالمى سوچ كى صورت ميں نكلا كہ جو خود مسلمانوں اور ايرانيوں كے ذہنوں ميں بھى سرايت كرگئي كہ يہ مغربى اقوام عالم خلقت ميں ايك منفرد نوعيت كى حامل ہيں كہ جو غير معمولى ذہن اور صلاحيتوں سے مالامال ہيں ، جبكہ مسلمان اور ديگر اقوام ان نعمتوں سے محروم ہيں ;قديم يونانى دور سے روم اور يورپى نشا ةثانيہ كے دورتك يہى مغربى اقوام ہميشہ ترقى يافتہ اور موجد ہيںجبكہ مشرقى اقوام اور مسلمان ہميشہ سے انكے مقلد اور انكى ايجادات كے صارف رہے ہيں _

دو صديوں سے ليكر اب تك اس قسم كے نظر يے كا وسيع پيمانے پرپروپيگنڈا ہوا كہ جسكا عملى نتيجہ يہ سامنے آيا كہ گويا ہم لوگ (علمى ميدان ميں) فضول كوشش نہ كريں اور نچلے درجہ كے انسان كى حيثيت سے اسے اپنى قسمت كا لكھا ہوا سمجھ كر تمام سياسى اور ثقافتى نتائج كے ساتھ قبول كرليں اس طرح معلوم ہوا كہ مغربى استعمار كى شيطانى مكارى اور ہم سب كى غفلت آہستہ آہستہ لوگوں ميں اس قسم كے نظريات پيدا ہونے كا باعث بنى جنہيں ثانوى صفات كا عنوان دينا چاہيے اور وہ (نظريات) يہ ہيں كہ '' ہم فضول كوشش نہ كر ليں'' ہم اس لائق نہيں ہيں كہ علم و دانش كے بلند و بالا درجات كى تمنا كريں بلك اسى حد تك قانع رہيں كہ جو ازل سے ہمارى قسمت ميں لكھا جاچكاہے _

كسى بھى ذمہ دار درد دل ركھنے والے كے ليے اس سے بڑھ كہ جانسوز غم نہ ہوگا كہ اسكى نظرياتى اور قومى حيثيت كو اسطرح پامال كيا جائے ، درست اسى زمانہ سے جب اسلامى اور مشرقى سرزمين اہل مغرب كى فوجى اور ثقافتى يلغار كا مركز بنى اس قسم كے نظريات كى نشر و اشاعت اور لوگوں كے ذہنوں ميں انہيں راسخ كرنے كا آغاز ہوا جو كہ اپنى جگہ استعماريت كا واضح نمونہ تھا، تو كچھ عظيم لوگ اٹھ كھڑے ہوئے جنہوں نے اہل مشرق اور مسلمانوں كى بيدارى كا نعرہ لگايا اور فرنگيوں كے متكبرانہ عزائم كے مقابلے ميں اسلامى بيدارى كا نقارہ بجايا_

اسلامى بيدارى كى لہريں دو سو سال سے اب تك روز بروز بلند اور وسيع تر ہو رہى ہيں ، عالم اسلام ميں اس تاريخى تحريك كا اہم ترين كا رنامہ بتدريج خود اعتمادى كے احساسات كے پلٹنے كى صورت ميں سامنے آيا ،آج ترقى يافتہ آڈيو ، ويڈيو اور اليكڑونك پروپيگنڈے كے باوجود اہل مغرب كا اپنى بڑائي اور برترى پر مبنى قديم دعوى مسلمان اور مشرقى اقوام پر بہت كم اثر چھوڑرہا ہے،اور آج فراعين زمانہ كے جادو كى قلعى كھل گئي ہے ليكن ان سے بے زارى كى يہ حالت علمى كم، سياسى زيادہ ہے اور يہ اسى طرح ہے جسطرح استعمار نے سياسى نفوذ كے بعد اقتصادى استحصال كے ليے ثقافتى و علمى غلبہ حاصل كيا(يعنى مغرب كے خلاف سياسى بيدارى ثقافتى اور علمى بيدارى پر منتج ہوگي)_

اسى ليے سياسى اور ثقافتى لحاظ سے بيدارى پيدا كرنے والے صف اول كے رہنماؤں نے جو ماحول فراہم كيا ہے اس سے فائدہ اٹھا نے اور ساتھ ساتھ علم و دانش ميں خود اعتمادى اور استقلال كو پلٹانے كيلئے جواسباب مہيا كرنا ضرورى تھے ان ہى مقاصد تك پہنچنے كيليے بعض شخصيات نے قابل قدر كوشش كيں ، ليكن اس ميدان ميں اگر غور و فكر كريں تو معلوم ہو گا كہ ابھى راہ كے آغاز ميں ہيں اورمنزل مقصود تك پہنچے ميں كافى فاصلہ پڑا ہے اگر چہ بلا شبہ حركت كا آغاز ہوچكا ہے _

ہم نے بھى كوشش كى كہ اپنى بساط كے مطابق قدم اٹھائيں ہميں اميد ہے كہ كاميابى سے ہمكنار ہونگے ، چار جلد كتاب ''پويايى فرہنگ و تمدن اسلام و ايران'' جوكہ اب تك نشر ہوچكى ہے وہ انہى اہداف كے پيش نظر ايك كوشش ہے اور يہ كتاب '' اسلامى تہذيب و تمدن كى تاريخ '' اس چار جلد كتاب كى اہم مباحث كا خلاصہ ہے كہ جو يونيورسٹيوں كى نصابى ضروريات كے مطابق مرتب كى گئي ہے _

اسلامى تاريخ كے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے كہ اسلامى تہذيب و تمدن كا سفر معين اور دقيق مراحل كا حامل ہے جو واضح اور قابل درك منطقى بنياد پر تشكيل پايا ہے جو شايد اسى فلسفہ تاريخ كا نمونہ ہے كہ ''تاريخ اپنے كو دہراتى ہے ''اور اگر ہم اسكا گراف بنائيں تو ہميں چند صديوں اور چند ہزاريوں ميں ملتے جلتے بلكہ ايك دوسرے كے عين مطابق نكات حاصل ہونگے ان مراحل كے اصلى عناوين يہ ہيں:

 

مرحلہ اول : زمانہ دعوت يا اسلامى تاريخ و تمدن كا آغاز

مرحلہ دوم: يثرب ميں اسلامى حكومت كے تشكيل كا زمانہ اور تمدن اسلامى كى علامتى بنياد قائم ہونا

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next