خداوند عالم کے حقوق اور اس کی نعمتوں کی عظمت و وسعت اور فرائض کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت



انسان کو زندگی میں دو اہم آفتوں کا سامنا ہوتا ہے : ایک یہ کہ اس کی زندگی کی ضروریات اسے مجبور کرتی ہیں کہ وہ ان کو پورا کرنے کی تلاش و جستجو کرے ، اس کے نتیجہ میں فرائض کو انجام دینے سے رہ جاتا ہے، دوسری یہ کہ جب فرائض انجام دینے لگتا ہے تو غرور تکبر و خود پسندی سے دوچار ہوتا ہے جو اس کے اعمال کو نابود کر دیتی ہیں اسے ان آفتوں سے بچنے کیلئے غور وفکر کرنا چاہیئے ۔

 

بعض لوگ تصور کرتے ہیں کہ الٰہی اور اجتماعی فرائض کو انجام دینا ان کی زندگی کو ابتر کرنے کا باعث ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ دنیوی امو رکو انجام دینا ایک ایسی ضرورت ہے جس سے اجتناب نہیں کیا جاسکتا ہے ان کا یہ تصور بذات خود الٰہی فرائض کے انجام دینے میں رکاوٹ کا سببہے یہ عذر اور بہانے شیطانی وسوسے ہیں ان وسوسوں سے نجات پانے کی راہ یہ ہے کہ انسان اس امر کی طرف توجہ کرے کہ خدائے متعال نے ہر شخص کیلئے اس کا رزق معین اور مقدر فرمایا ہے ۔

 

قرآن و سنت کی بیان شدہ تعلیمات میں جن کی طرف انسان کو توجہ کرنا ضروری ہے ، رزق کے مقدر ہونے کا مسئلہ ہے ہم اس وقت روزی کے مقدر ہونے کے مفہوم کے بارے میں اور اس سلسلہ میں کیا انسان کو رزق حاصل کرنے کیلئے تلاش و کوشش کرنا چاہیئے یا نہیں ، وضاحت کرنا نہیں چاہتے بلکہ اجمالی طور پر اشارہ کرتے ہیں کہ دینی معارف میں اس مسئلہ کوکافی اہمیت دی گئی ہے ۔

 

نہج البلاغہ میں متعدد مقامات پر رزق کے مقدر ہونے کے بارے میں اشارہ کیا گیا ہے اسی مذکورہ روایت میں بھی یہ ذکر ہوا ہے کہ اگر کوئی اپنا رزق حاصل کرنے میں سستی دکھائے تو کوئی دوسرا ہرگز اس کا رزق نہیں کھا سکتا ہے اگر کوئی مال جمع کرنے سے زیادہ لالچ دکھائے اور تلاش کرے کہ اپنے لئے زیادہ سے زیادہ مال ذخیرہ کرلے لیکن جو اس کی قسمت میں نہیں ہے وہ اسے حاصل نہیں کرسکے گا پس اس امر کی طرف توجہ رکھنا شیطانی وسوسوں کیلئے رکاوٹ بن سکتا ہے ۔

 

جب شیطان یہ کوشش کرتا ہے کہ انسان کوالٰہی فرائض انجام دینے سے روکے تو فرائض انجام دینے کے دوران اس کے دل میں یہ وسوسہ ڈالٹا ہے کہ اس وقت تجھےاپنی روزی روٹی کی تلاش میں ہوناچاہیے تھاایسے وقت میں چاہئے شیطان کے منہ پرلات مار کر یہ کہے کہ ہٹ جا وٴ !میرا رزق میری قسمت میں لکھا جا چکا ہے اسے کوئی اورنہیںلے سکتا ہے ۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next