امام حسین علیہ السلام کی جانب پسر سعد کی روانگی



 

امام حسین علیہ السلام   Ú©ÛŒ جانب پسر سعد Ú©ÛŒ روانگی

 

امام حسین علیہ السلام Ú©ÛŒ طرف پسر سعد Ú©ÛŒ روانگی کا سبب یہ تھا کہ عبیداللہ بن زیاد Ù†Û’ اسے  اھل کوفہ Ú©ÛŒ چارہزار فوج Ú©Û’ ھمراہ ”ھمدان “اور” ری“ Ú©Û’ درمیان ایک علا قہ Ú©ÛŒ طرف روانہ کیا تھا      جسے دشتبہ[1] کھتے ھیں جھاں دیلمیوں Ù†Û’ حکومت Ú©Û’ خلاف خروج کر Ú©Û’ غلبہ حاصل کر لیا تھا Û” ابن زیاد Ù†Û’ خط Ù„Ú©Ú¾ کر ”ری“ Ú©ÛŒ حکومت اس Ú©Û’ سپردکی اور اسے روانگی کا Ø­Ú©Ù… دیا Û”

عمر بن سعد اپنی فوج کے ھمراہ روانہ ھو گیا۔” حمام اعین “[2] کے پاس جا کر پڑاوٴ ڈالا لیکن جب امام حسین علیہ السلام کامسئلہ سامنے آیا کہ وہ کو فہ کی طرف آرھے ھیں تو ابن زیاد نے عمر سعد کو بلا یا اور کھا : تم حسین کی طرف روانہ ھو جاوٴ اور جب ھمارے اور اس کے درمیان کی مشکل حل ھو جائے تب تم اپنے کام کی طرف جانا۔ اس پر عمر بن سعد نے کھا : اللہ آپ پر رحم کرے اگر آپ بھتر سمجھیں تو مجھے اس سے معاف فرمائیں اور یہ کام خود انجام دیں۔ یہ سن کر ابن زیاد نے کھا : ھاں یہ ممکن ھے لیکن اس شرط پر کہ تم وہ عھد نا مہ واپس کر دو جو میں نے تم کو” ری“ کے سلسلے میں دیا ھے۔جیسے ھی ابن زیاد نے یہ کھا ویسے ھی عمر بن سعد بولا:مجھے ایک دن کی مھلت دیجئے تاکہ میں خوب فکر کرسکوں اور وھاں سے اٹھ کر اپنے خیر خوا ھوں کے پاس مشورہ کرنے کے لئے آیا۔تمام مشورہ دینے والوں نے اسے اس کام میں ھا تھ ڈالنے سے منع کیا ۔

 Ø§Ø³ کا بھا نجا حمزہ بن مغیرہ بن شعبہ [3]اس Ú©Û’ پاس آیا اور Ú©Ú¾Ù†Û’ لگا : اے ماموں ! میں آپ Ú©Ùˆ خدا Ú©ÛŒ قسم دیتا Ú¾ÙˆÚº کہ آپ حسین (علیہ السلام)  Ú©ÛŒ طرف نہ جائیں ورنہ آپ اپنے رب Ú©Û’ گناہ گار اور اپنے نزدیکی  رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والے Ú¾ÙˆÚº Ú¯Û’Û” خدا Ú©ÛŒ قسم اگر آپ دنیا سے اس حال میں Ú©ÙˆÚ† کریں کہ آپ تمام دنیا Ú©Û’ مالک ومختار ھوںاور وہ آپ Ú©Û’ ھاتھ سے Ù†Ú©Ù„ جائے تو یہ آپ Ú©Û’ لئے اس سے بھتر Ú¾Û’ کہ آپ اللہ سے اس حال میں ملا قات کریں کہ حسین (علیہ السلام) Ú©Û’ خون کا دھبہ آپ Ú©Û’ دامن پر Ú¾Ùˆ !اس پر ابن سعد Ù†Û’ کھا : انشا Ø¡ اللہ میں ایسا Ú¾ÛŒ کروں گا Û”[4]

یھاں سے طبری Ú©ÛŒ روایت میں ابومخنف Ú©ÛŒ خبروں Ú©Û’ سلسلہ میں انقطاع پایا جاتا Ú¾Û’ اور   ابن سعد Ú©Û’ کربلا میں وارد ھونے Ú©ÛŒ داستان کا تذکرہ ملتا Ú¾Û’Û” اس خلاء Ú©Ùˆ طبری Ù†Û’ ”عوانہ بن حکم“ Ú©ÛŒ خبر سے پُر کیا Ú¾Û’Û” چار وناچا ربط بر قرار رکھنے Ú©Û’ لئے ھمیں اسی سلسلے سے متصل ھونا پڑرھا Ú¾Û’ Û”  

ھشام کابیان Ú¾Û’ :مجھ سے” عوانہ بن حکم“ Ù†Û’ عمار ابن عبداللہ بن یسارجھنی Ú©Û’ حوالے سے بیان کیا Ú¾Û’ اور اس Ù†Û’ اپنے باپ سے نقل کیا Ú¾Û’ کہ میرے والد Ù†Û’ کھا :میں عمر بن سعدکے پاس حاضر ھواتواس Ú©Ùˆ امام حسین علیہ السلام Ú©ÛŒ طرف روانگی کا Ø­Ú©Ù… مل چکا تھا۔مجھے دیکھ کر اس Ù†Û’ فوراًکھا :امیر Ù†Û’ مجھے Ø­Ú©Ù… دیا Ú¾Û’ کہ میں حسین (علیہ السلام)  Ú©ÛŒ طرف روانہ ھوجاوٴں لیکن میں Ù†Û’ اس Ù…Ú¾Ù… سے انکا رکر دیا Û” میں Ù†Û’ اس سے کھا: اللہ تمھارا مدد گا Ú¾Û’ØŒ اس Ù†Û’ تم Ú©Ùˆ صحیح راستہ دکھا یاھے۔ تم یھیں رھو اور یہ کام انجام نہ دو اور نہ Ú¾ÛŒ حسین (علیہ السلام)  Ú©ÛŒ طرف جاوٴ! یسار جھنی کھتا Ú¾Û’: یہ کہہ کر میں پسر سعد Ú©Û’ پاس سے Ù†Ú©Ù„ آیا توکھنے والے Ù†Û’ آکر مجھے خبر دی کہ عمر بن سعد لوگوں Ú©Ùˆ حسین (علیہ السلام)  Ú©Û’ خلاف جنگ کر Ù†Û’ Ú©Û’ لئے بلا رھا Ú¾Û’ Ø› یہ سن کر میں حیرت زدہ Ú¾Ùˆ گیا! فوراً اس Ú©Û’ پاس آیا، وہ اس وقت بےٹھا ھوا تھا ااورمجھے دیکھ کر اپنا چھرہ فوراً موڑ لیا۔میں سمجھ گیا کہ اس Ù†Û’ جانے کا مصمم ارادہ کر لیا Ú¾Û’ اور میں فوراً اس Ú©Û’ پاس سے Ù†Ú©Ù„ آیا۔ راوی کا بیان Ú¾Û’ : وھاںسے عمر بن سعد ØŒ ابن زیاد Ú©Û’ پاس آیا اور کھا : اللہ آپ Ú©Ùˆ سلامت رکھے !آپ Ù†Û’ ایک کام میرے سپرد کیا Ú¾Û’ اور اس کا عھد نامہ بھی میرے لئے Ù„Ú©Ú¾ دیا Ú¾Û’Û” لوگوں Ù†Û’ اس بات Ú©Ùˆ سن بھی لیا Ú¾Û’ ( کہ میں ”ری“ جا رھا Ú¾ÙˆÚº) تو اب اگر آپ بھتر سمجھیں تو ھمارے لئے اسی Ø­Ú©Ù… Ú©Ùˆ نافذ رکھیں اورحسین (علیہ السلام)  Ú©ÛŒ طرف اس لشکر میں سے کوفہ Ú©Û’ کسی سر برآوردہ شخص Ú©Ùˆ بھیج دیں کیونکہ میں فنون جنگ Ú©Û’ لحاظ سے ان سے زیادہ ماھر اور تجربہ کار نھیں ھوں۔اس Ú©Û’ بعد پسر سعد Ù†Û’ چند لوگوں Ú©Û’ نام ابن زیاد Ú©ÛŒ خدمت میں پیش کئے تو ابن زیاد Ù†Û’ اس سے کھا : تم مجھے اشراف کوفہ Ú©Û’ سلسلے میں سبق مت سکھاوٴ اور حسین (علیہ السلام)  Ú©ÛŒ طرف کس Ú©Ùˆ روانہ کیا جائے اس سلسلہ میںمیں Ù†Û’ تم سے کوئی مشورہ نھیں چاھا Ú¾Û’Û” اگر تم چاھتے Ú¾Ùˆ تو ھمارے لشکر Ú©Û’ ساتھ روانہ Ú¾Ùˆ جاوٴورنہ ھمارے عھد نامہ Ú©Ùˆ ھمیں لوٹا دو ! جب پسر سعد Ù†Û’ دیکھا کہ ابن زیاد Ú¾Ù¹ دھرمی پر آچکا Ú¾Û’ تو اس Ù†Û’ کھا : ٹھیک Ú¾Û’ میں ر وانہ ھورھاھوں۔ یسار جھنی کا بیان Ú¾Û’ : وھاں سے Ù†Ú©Ù„ کر پسر سعد چار ہزار[5] فوج Ú©Û’ ساتھ حسین(علیہ السلام)  Ú©ÛŒ طرف روانہ ھوا اور حسین (علیہ السلام)  Ú©Û’ نینوا وارد ھونے Ú©Û’ دوسرے دن کربلا میں وارد Ú¾Ùˆ گیا۔ راوی کا بیان Ú¾Û’ کہ وھاں Ù¾Ú¾Ù†Ú† کر عمر بن سعد Ù†Û’ عزرہ بن قیس احمسی [6]Ú©Ùˆ حسین(علیہ السلام)Ú©ÛŒ طرف روانہ کیا اور کھا : ان Ú©Û’ پاس جاوٴ اور پوچھو کہ کون سی چیز ان Ú©Ùˆ یھاں لائی Ú¾Û’ اور وہ کیا چاھتے ھیں ØŸ یہ عزرہ ان لوگوں میں سے ایک Ú¾Û’ جنھوں Ù†Û’ حسین علیہ السلام Ú©Ùˆ خط لکھا تھا لہٰذا اسے شرم آئی کہ وہ یہ پیغام Ù„Û’ کر وھاں جائے Ø› جب اس Ù†Û’ انکار کردیا تو پسر سعد Ù†Û’ ان تمام سربر آوردہ افراد Ú©Û’ سامنے یہ پیش Ú©Ø´ رکھی جن لوگوں Ù†Û’ حسین علیہ السلام Ú©Ùˆ خط لکھا تھالیکن ان تمام لوگوں Ù†Û’ جانے سے انکار کردیا اور اس بات Ú©Ùˆ پسندنھیں کیا یھاں تک کہ ان Ú©Û’ درمیان ایک شخص کثیر بن عبداللہ شعبی اٹھا ( جو بڑا بے باک رزم آور تھا اور اس Ú©Û’ چھرے پر کوئی تاثّر نھیں تھا ) اور Ú©Ú¾Ù†Û’ لگا : میں ان Ú©Û’ پاس جاوٴں گا خدا Ú©ÛŒ قسم اگر میں چاھو ںتو انھیں دھوکہ سے قتل بھی کرسکتا Ú¾ÙˆÚºÛ”[7]عمر بن سعد Ù†Û’ کھا : میں یہ نھیں چاھتا کہ تم ان Ú©Ùˆ قتل کرو ،بس تم جاوٴ اور یہ پوچھوکہ وہ کس لئے آئے ھیں ØŸ

راوی کا بیان Ú¾Û’ : وہ اٹھا اور حسین(علیہ السلام)  Ú©ÛŒ طرف آیا۔ جیسے Ú¾ÛŒ ابو ثمامہ صائدی[8]Ù†Û’ اسے دیکھا امام حسین علیہ السلام سے عرض کیا:اے ابو عبداللہ خدا آپ Ú©Ùˆ سلامت رکھے! آپ Ú©ÛŒ طرف وہ شخص آرھا Ú¾Û’ جو روئے زمین پر شریرترین اور بد ترین شخص Ú¾Û’ØŒ جو خون بھانے اور دھوکے سے قتل کرنے میں بڑا   بے باک Ú¾Û’Ø› یہ کہہ کر ابو ثمامہ اس Ú©ÛŒ طرف بڑھے اور فرمایا: اپنی تلوارخود سے الگ کرو ! اس Ù†Û’ کھا : نھیں خدا Ú©ÛŒ قسم یہ میری کرامت Ú©Û’ خلاف Ú¾Û’Û” میں تو ایک پیغام رساں ھوں،اگر تم لوگوں Ù†Û’ چاھا تو میں اس پیغام Ú©Ùˆ تم تک پھنچادوں گا جو تمھارے لئے Ù„Û’ کر آیا Ú¾ÙˆÚº اور اگرانکا رکیا تو واپس چلاجاوٴں گا۔

ابو ثمامہ : ٹھیک ھے پھر میں تمھارے قبضہٴ شمشیر کو اپنے ھاتھوں میں لے لوں گا اس کے بعد تم جو کچھ بیان کرنا چاھتے ھو بیان کرلینا ۔

کثیر بن عبداللہ : نھیں خدا کی قسم تم اسے چھوبھی نھیں سکتے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next